اسلام آباد: سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصورعلی شاہ نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مصنوعی ذہانت سمیت دیگر جدید ٹیکنالوجیز کا استعمال ضروری قرار دے دیا۔
اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے موسمیاتی احتساب کا شعبہ قائم کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ محکمہ موسمیات موجود ہے مگر بہت سی چیزوں پر کام نہیں ہو رہا جبکہ محکمہ موسمیات کو ایک سادہ پیشنگوئی کرنے والی ڈیٹا انٹیلی جنس ایجنسی پر منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔
جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ وزارت موسمیاتی تبدیلی اور پی ایم ڈی کو مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا اور صرف پالیسیاں نہیں بلکہ عملی اقدامات ضرری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں سائنسی بنیادوں پر پیشگی اقدامات کرنا ہوں گے، کیونکہ موجودہ دور میں ماحولیاتی معاملات میں احتساب ضروری ہے۔
انہوں نے مزید کہ محکمہ موسمیات میں مصنوعی ذہانت کا محدود استعمال ہے، اگر آپ اے آئی پر منتقل نہیں ہو رہے تو پیچھے رہ جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ کلائمیٹ کے حوالے سے کورٹ ہونی چاہیے جہاں ہم اس پر بات کرسکیں، ڈیٹا اور کلائمیٹ سائنس کے حوالے سے ہمیں آگاہی حاصل کرنا ہوگی، اےآئی اور دور حاضر کے سافٹ ویئرز نہیں سیکھیں گے تو دنیا سے پیچھے رہ جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی یونیورسٹی میں پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی چیلنجز پر بات نہیں ہوتی، پی ایم ڈی کو کلائمیٹ ماڈلنگ اور لاس اینڈ ڈیمیج پر کام کرنا ہوگا، نیشنل کلائمیٹ سائنس اتھارٹی ہونی چاہیے یہ کا م پی ایم ڈی کرے یا کوئی اور ادارہ کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو آگے بڑھانا ہے تو ہمیں متحد ہو کر کام کرنا ہوگا اور پاکستان کے نوجوانوں کو بھی کلائمیٹ کونسلز پر کام کرنا ہو گا جبکہ آج کام نہ ہوا تو نوجوان نسل مستقبل میں موسمیاتی تبدیلی کے سنگین نتائج دیکھے گی۔