تحریر
فرزانہ کوثر
معاشرتی طور پرہم لوگ کئی طرح کے چہروں کے ساتھ جی رہے ہیں کہیں ہم ماشہ ہوتے ہیں اور کہیں تولہ۔ہمارے اخلاق اور ہم ہر جگہ صحیح ہیں مگر سب ہمارے ساتھ ہی غلط کر رہے ہیں یہ ہماری عمومی سوچ بن چکی ہیں۔ ہم سب ایک ہی سوچ کے ساتھ پروان چڑھ رہے ہیں کیونکہ ہم یہی سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔آج میں بیٹیوں سے متعلق ایک ایسی ہی دو رخی کے سے متعلق لکھ رہی ہوں کاش کہ ہم کچھ ایسا سوچ لیں جس سے ہم سب کی بیٹیوں کو عزت دیں سکیں۔ہوا کچھ یوں ہوا کہ پچھلے مہینے بھائی کو اللہ پاک نے دوسری بیٹی سے نوازا۔بیٹی کی پیدائش پر پمیں جو دعا دی گئی وہ تھی چلو۔۔۔۔اللہ اسکا نصیب اچھا کرے۔ہمارے ایک بھائی کی دو بیٹیاں ہیں اور ایک کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا اور سب سے بڑے بھائی کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا۔اب سب لوگوں کو ہمارے آس پاس بیٹیاں ہی نظر ارہی تھیں اس لئے اس دعا سے ہمیں تسلی دے رہے تھے۔ ہماری پیاری بیٹیاں ہمارے گھر کی رونق اور سب کی جان ہیں۔اب آتے ہیں اس سوچ کی طرف ہم اکثر ہی بیٹیوں کو یہ دعا دیتے ہیں کہ اللہ پاک انکا نصیب اچھا کرے۔ہمارے گھروں میں سب کی ہی بیٹیاں ہوتی ہیں اور بیٹے بھی ہماری بیٹیاں دوسرے گھروں میں چلی جاتی ہیں اور ہمارے بیٹے بھی کسی کہ بیٹیاں لے آتے ہیں۔سب کو ہی معلوم ہے کہ ہم بیٹی کی پیدائش پر اچھے نصیب کی دعا دیتے ہیں پھر وہ بیٹی جو ہمارے گھر آتی ہے اسکا نصیب تو ہمارے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے ہم کیوں اس کے اچھے نصیب کا ذریعہ نہیں بنتے بلکہ ہمارے گھروں میں مقابلہ کی ایک فضا شروع ہوجاتی ہے جسکے کردار ساس، نند،بہو یا پھر دیوارانیاں ہوتی ہیں یہاں ایک بھر پور مقابلہ شروع ہوتا ہے جس میں کوئی ہار ماننے کیلئے تیار نہیں.سب کی ہی بیٹیاں دکھی اور بہوئیں خوش ہیں۔یہ ہمارا ایک انوکھا وطیرہ بنا ہوا ہے۔ہم نے اپنی بیٹی کے نصیب کی دعائیں دامن اٹھا اٹھا کر کرنی ہیں اور اپنے گھر آئی بیٹی کی ہمیں یہ فکر کیوں نہیں ہوتی؟
ہمیں اس پہلو پر سوچنا ہی نہیں بلکہ اس پر اپنا عمل بھی بدلنا ہوگا تاکہ ہم سب کہ بیٹیوں کو دی گئی دعا قبول ہو کہ اللہ پاک بیٹیوں کے نصیب اچھے کرے۔
اپنا عمل بدلنے سے ہی ہماری یہ دعا قبول ہوتی نظر آتی ہے کیونکہ بیٹیاں تو سب کی ہی ہوتی ہیں اور لاڈلی بھی۔۔۔۔اپنی بیٹیوں کیلئے ہی ہمیں دوسروں کہ بیٹیوں کو خوش رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔عورتوں کو ہی اس مقابلہ سے نکلنا ہوگا تاکہ ہماری عورتیں ہی پرسکون ہوسکیں۔اگر ہم زندگی کے سکون سے متعلق سوچیں تو گھر کا سکون ہی زندگی کا سکون ہے مال اسباب کی کثرت ہا کمی کا کردار اس میں بہت زیادہ نہیں۔ہم درگذر سے ہی اپنی بیٹیوں کو خوشیاں دے سکتے ہیں اور یہ بیٹیاں بھی ایسا معاشرتی رویہ دیکھ کر اپنے گھروں میں جاکر درگذر کا معاملہ کر سکیں۔
ایک دعا کی حثیت ایسی ہی ہے جیسے ہم فسلطین اور کشمیر کی آزادی کی دعا تو کر رپے ہیں مگر عمل نہ ہونے کی وجہ ہماری یہ دعا قبول نہیں ہورہی۔ اسی طرح ہماری سب دعاوں کے قبول ہونے کا انحصار ہمارے اعمال پر ہے۔قصہ مختصر یہ کہ ہم سب کی بیٹیاں خوش نصیب ہوسکتی ہیں اگر اچھی تربیت کے ساتھ جس گھر میں بیٹی کو رخصت کیا جاتا ہے وہاں بھی اس بچی کا اسقبال بطور بیٹی ہی ہو ناکہ دوسرے کی بیٹی سمجھ کر مقابلہ شروع ہوجائے۔
میں ایک بات کہتی ہوں کہ اگر ہم کسی کو عزت دیں تو ہو نہیں سکتا کہ وہ ہمیں عزت نہ دے۔ہاں کچھ وقت لگ سکتا ہے مگر ناممکن نہیں۔نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہوجائے گا جیسے دلی دوست۔میں اس آیت اور اگلی آیت کو معاشرتی حسن سلوک کی آہات کہتی ہوں جنکی وجہ سے ہم بہت ہی پر سکون زندگی گزار سکتے ہیں اگلی آیت میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ ایسا نہیں کر سکتے مگر وہ لوگ جو صبر کریں اور یہ نہیں پا سکتا سوائے نصیب والوں کے یا کرم والوں کے۔اللہ پاک کا کہنا اور پھر ایسا کر کے نتیجہ وہی پانا۔۔۔ سوچیں اس میں کتنا سکون ہوگا راحت ہوگی اور سب سے بڑھ کر اپکا ضمیر مطمعین ہوگا۔۔۔۔کہ ہم نقصان پہنچانے والوں میں سے نہیں بلکہ فائدہ پہنچانے والوں میں ہونے کی کوشش کرنے والوں میں سے ہیں۔ہماری اس کوشش کا ثمر ہمیں رات کو سونے سے پہلے ملتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ میری کوئی بھی سوچ اس وقت کسی کیلئے نفرت پر مشتمل نہیں ہاں اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں آج سے ہی یہ کوشش کرنی ہے۔