گھر واالوں نے 15 سال پہلے بغیر تحقیق کے شادی کردی جس سے 5 بچے بھی ہیں شوہر سرکاری ملازم تھا مگر آئے روز کی غیر حاضری پر اسے ملازمت سے نکال دیا گیا جس کی سزا مجھے گالم گلوچ اور تشدد کے طور پر ملی۔12 سال کی بیٹی ہے جو روز ماں کو تشدد سہتے دیکھتی رہتی ہے۔اب شوہر نے بیٹیاں چھین کر گھر سے نکال دیا ہے۔ان خیالات کا اظہار روبینہ کوثر نے لب آزاد سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔روبینہ کوثر کے مطابق میکے میں بھی والدین کے بعد جگہ نہیں ہے اس لیے خیراتی ادارے میں پناہ لینا پڑی ہے دو بار بیٹیوں کیلئے کوشش کی کہ گھر واپس چلی جاؤں کیونکہ ان کا باپ انہیں گھر کے اندر بند کرکے رات گئے تک واپس آتا ہے مگر شوہر نے گھر میں گھسنے نہیں دیا۔یہ کہانی پاکستان میں ہر تیسری شادی شدہ عورت کی ہے گزرتے وقت نےجنس کی بنیاد پرکیے والے تشدد کو مزید سنگین بنایا ہے ۔گھریلو تشدد جو نفسیاتی، جذباتی، جنسی، اور معاشی استحصال ہے۔شعور کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔
جنس کی بنیاد پر تشدد کی کئی اقسام ہیں، جن میں شامل ہیں
1.گھریلو تشددجو ایک گھریلو سطح پر ہوتا ہے جس میں شوہر اپنی بیوی، والدین اپنے بچوں، یا دیگر قریبی رشتہ دار اپنے گھریلو افراد کو جسمانی، ذہنی، یا جذباتی طور پر اذیت دیتے ہیں۔جنسی تشدد جس میں زنا بالجبر، جنسی ہراسانی، اور مجبوری سے جنسی تعلقات شامل ہیں، جو خواتین اور بچیوں کے ساتھ عام طور پر ہوتے ہیں۔پھرنفسیاتی تشددجو کسی کی ذہنی حالت پر اثر انداز ہوتا ہے، جیسے کہ نفرت انگیز کلمات یا دھمکیاں دینا جس سے متاثرہ شخص کی خود اعتمادی کم ہو جاتی ہے۔معاشی تشددمیں کسی فرد کو مالی طور پر پابند کرنا، اس کی آمدنی پر قابو پانا، یا اسے اقتصادی حقوق سے محروم کرنا شامل ہے۔
پاکستان میں جنس کی بنیاد پر تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، ہر دن 9 خواتین جنسی تشدد یا گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں جبکہ دنیا میں ہر گیارہ منٹ میں کوئی خاتون یا لڑکی اپنے ہی کسی قریبی ساتھی یا رشتہ دار کے ہاتھوں قتل ہوتی ہے۔ اسی طرح کووڈ۔19 وباء سے معاشی بدحالی تک تناؤ کی بہت سی کیفیات کے باعث جسمانی و زبانی بدسلوکی میں شدت آئی ہے۔
خانگی ماحول میں صنفی بنیاد پر ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد ایشیا میں سامنے آئی جبکہ خواتین اور لڑکیوں کو اپنے ہی ساتھیوں یا خاندان کے دیگر ارکان کے ہاتھوں قتل کا سب سے زیادہ خطرہ افریقہ میں پایا گیا۔گزشتہ برس افریقہ میں ہر ایک لاکھ خواتین میں سے تقریباً 2.5 کو ان کے قریبی لوگوں نے قتل کیا۔ براعظم ہائے امریکہ میں یہ شرح 1.4، اوشیانا میں 1.2، ایشیا میں 0.8 اور یورپ میں 0.6 رہی۔اس کےحل کے لیے پاکستان میں کئی قوانین بنائے گئے ہیں۔ 2016 میں پنجاب پروٹیکشن آف ویمن اگینسٹ وائلنس ایکٹ بنایا گیا جس کے تحت خواتین کو گھریلو تشدد سے بچانا تھا۔
اس کے علاوہ اینٹی رینکنگ لاء بھی موجود ہے، اور پہلے بھی لوگ ان قوانین کے حصول میں کامیاب ثابت ہو چکے ہیں، لیکن ان قوانین کے باوجود تشدد کا شکار خواتین کی تعداد میں کمی نہیں آ رہی۔جنس کی بنیاد پر تشدد ایک پیچیدہ اور سنگین مسئلہ ہے جس کا حل تب ہی ممکن ہے جب ہم سب مل کر اس کے خلاف آواز اٹھائیں، خواتین کے حقوق کا احترام کریں، اور قوانین کے نفاذ میں مدد کریں۔