سید خالد جاوید بخاری
برصغیر کی سرزمین تہذیبوں کا گہوارہ رہی ہے۔ یہاں کے دریاؤں کے بہاؤ، میدانوں کی زرخیزی، اور بارانی خطوں کی تشکیل نے انسانی زندگی اور تمدن پر گہرے اثرات ڈالے۔ پنجاب، جسے "پانچ دریاؤں کی سرزمین” کہا جاتا ہے، اپنی زرخیز زمین، متنوع ثقافت، اور تاریخی وحدتوں کے باعث ہمیشہ سے منفرد اہمیت کا حامل رہا ہے۔ انہی وحدتوں میں ایک نمایاں نام موجودہ فیصل آباد (سابقہ لائلپور) کا ہے، جو اپنے قیام سے قبل "چار باروں” — ساندل بار، نیلی بار، گنجی بار، اور کرانہ بار — پر مشتمل ایک بھرپور جغرافیائی و تمدنی اکائی تھا۔
یہ مقالہ ان چاروں باروں کی تاریخی، جغرافیائی، تمدنی اور معاشی جہتوں کا ایک جامع اور تحقیقی جائزہ پیش کرتا ہے۔
لفظ "بار” پنجابی زبان میں ان علاقوں کو کہا جاتا تھا جو دریا کے کناروں سے ہٹ کر واقع ہوتے، نسبتاً بلند، غیر آباد اور جنگلات سے گھِرے ہوتے تھے۔ ان علاقوں میں آبپاشی کے لیے کسی نہری نظام کی بجائے بارش کے پانی پر انحصار کیا جاتا تھا۔ "بار” محض جغرافیائی اکائی نہ تھی بلکہ اپنے اندر ایک مخصوص طرزِ زندگی، معیشت اور ثقافت سموئے ہوئے تھی۔
ساندل بار لائلپور کا سب سے معروف بار تھا، جس کا نام ممکنہ طور پر کسی مقامی سردار یا قبیلے — ساندل یا سندل — سے منسوب ہے۔ اس کی جغرافیائی حدود دریائے راوی اور دریائے چناب کے درمیان واقع تھیں، جو اس کے قدرتی حسن اور زرخیزی کا سبب بنیں۔جغرافیائی طور پر اس کے شمال میں دریائے راوی، جنوب میں دریائے چناب، مشرق میں ضلع جھنگ اور مغرب میں ضلع حافظ آباد واقع تھا.
ساندل بار گھنے جنگلات کا مسکن تھا، جنہیں برطانوی دور میں کاٹ کر قابلِ کاشت زمینوں میں بدلا گیا۔ 1890 سے 1910 کے دوران، یہاں "کالونائزیشن اسکیم” کے تحت نہ صرف زمینوں کی تقسیم عمل میں لائی گئی بلکہ 1904 میں لائلپور شہر کی بنیاد بھی رکھی گئی۔یہ علاقہ جھنگ برانچ اور گوگیرہ برانچ جیسی نہروں کے ذریعے سیراب کیا گیا، جس سے یہاں زراعت کو فروغ ملا۔ موجودہ "ساندل بار میوزیم” اسی تہذیبی ورثے کا امین ہے۔
نیلی بار کا نام اس علاقے کی نیلی مٹی، جھاڑیوں یا شاید "نیل” قبیلے سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کا جمالیاتی رنگ و آہنگ اس کے نام میں جھلکتا ہے۔یہ جغرافیائی طور پر اضلاع ساہیوال، اوکاڑہ، اور پاکپتن پر مشتمل تھی، جس کے مشرق میں دریائے ستلج، مغرب میں دریائے راوی واقع تھا.
نیلی بار، گوگیرہ جنگل، وسیع چراگاہیں اور شکاری ماحول کی وجہ سے شہرت رکھتا تھا۔ پاکپتن میں بابا فرید گنج شکر کا آستانہ اور لوک داستان "ہیر رانجھا” کا پس منظر اس بار کی گہرائیوں میں پیوست ہے، جو اس کی روحانی و ادبی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
گنجی بار کے تاریخی پس منظر کاجائزہ لیں تو لفظ "گنجی” کا مطلب ننگی یا بے درخت زمین ہے، جو اس بار کے قدرتی خدوخال کی درست عکاسی کرتا ہے۔ یہ علاقہ نسبتاً خشک، کم بارش والا اور جنگلات سے خالی تھا۔یہ جغرافیائی طور پر دریاؤں چناب اور ستلج کےدرمیان واقع موجودہ اضلاع خانیوال، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ پر مشتمل تھا.
اگرچہ ابتدائی طور پر یہ علاقہ چراگاہوں اور گلہ بانی کے لیے استعمال ہوتا رہا، لیکن برطانوی دور میں جھنگ اور گوجرہ برانچ کی تعمیر سے اس کی زرخیزی میں اضافہ ہوا۔ بعد ازاں یہ علاقہ گندم، کپاس اور گنا کی پیداوار کے لیے مشہور ہوا۔
کرانہ بار (کریانہ بار)، جو نسبتاً کم معروف مگر اہم بار تھی، نیلی بار کے جنوب میں واقع تھی۔ اس کی اہمیت اس کے جغرافیائی محلِ وقوع اور قافلوں کی گزرگاہ کے طور پر نمایاں ہے۔یہ جغرافیائی طور پر خانیوال، کبیر والا اور ملحقہ علاقےکے ساتھ ستلج اور بیاس کے درمیان واقع تھی.یہ علاقہ بارانی ہونے کے باوجود چراگاہوں کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ یہاں مقامی قبائل جیسے سوانی، جٹ، راجپوت اور بلوچ آباد تھے، جنہوں نے اس کی ثقافت کو دوام بخشا۔ زبانی تاریخ میں کرانہ بار کو قافلوں کی گزرگاہ اور ثقافتی تبادلے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
برطانوی راج کے دوران، ان بار علاقوں کو منصوبہ بندی سے قابلِ کاشت زمینوں میں تبدیل کیا گیا۔ "نہری کالونی” کا نظام متعارف کروا کر برطانوی حکومت نے زمینیں پنجاب بھر سے لائے گئے آبادکاروں میں تقسیم کیں۔ اس کے ساتھ لائلپور کا شطرنجی نقشہ، لائلپور–جھنگ ریلوے لائن، زرعی یونیورسٹی (1906) کا قیام، یہ سب اس منصوبہ بندی کا حصہ تھے، جس نے ساندل بار اور ملحقہ علاقوں کو پنجاب کا زرعی مرکز بنا دیا۔
لائلپور کی چار باریں — ساندل، نیلی، گنجی اور کرانہ — صرف جغرافیائی اصطلاحات نہیں، بلکہ تمدنی، ثقافتی اور تہذیبی اکائیاں تھیں۔ ان باروں میں بسی زندگی، یہاں کی زبانی داستانیں، لوک تہذیب، اور زراعتی ارتقاء نے پنجاب کے اس حصے کو ایک مخصوص شناخت بخشی۔ آج فیصل آباد کا جو سماجی و اقتصادی ڈھانچہ نظر آتا ہے، اس کی بنیاد انہی باروں کی تاریخ میں پیوست ہے۔
حوالہ جات:….
1. Imran Ali, The Punjab under Imperialism, 1885–1947, Oxford University Press, 1988
2. Gazetteer of the Lyallpur District (1905)
3. Punjab Settlement Reports, British India Archive
4. Dr. Tahir Kamran, Colonial Punjab: Institutions and Identities, Beacon Books, 2014
5. Oral Accounts from residents of Faisalabad, Jhang, Toba Tek Singh (Punjab Lok Sujag)
6. Punjab Archives, Lahore: Records on Canal Colonization
سینیئر قانون دان ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔