Untitled 29

فیض احمد فیض کی مزاحمتی نظم نگاری

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

فیض احمد فیض برصغیر پاک و ہند کی ترقی پسند تحریک کے وہ ممتاز شاعر گزرے ہیں، جنہوں نے استعمار، سیاسی آمریت، طبقاتی جبر اور سیاسی استحصال کے خلاف اپنی نظمیہ شاعری کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ فیض کی شاعری میں مزاحمت اور جدوجہد کا حسین امتزاج جابجا ملتا ہے۔ ان کی شہرہ آفاق نظم "نثار میں تیری گلیوں کے” اسی مزاحمتی روایت کا شاہکار ہے جو فیض نے قیام پاکستان کے بعد بڑھتے ہوئے سیاسی جبر، قید و بند اور سنسرشپ کے خلاف لکھی۔ اس نظم کا پس منظر ان کی قید و بند کی زندگی ہے، جو قید کے بعد ان پر گزری۔

نظم کی پہلی سطر "نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں” سے ہی قاری ایک داخلی کشمکش اور غور و فکر اور میں داخل ہوتا ہے۔ شاعر وطن سے محبت کا اعلانیہ اظہار کرتے ہوئے، ایک ایسے وطن کی گلیوں کی نذر ہو جانے کی بات کرتا ہے جہاں "کوئی نہ سر اٹھا کے چلے” بلکہ سر جھکا کے چلے یعنی ظلم و جبر کا وہ ماحول جس میں انسان کا سراٹھانا جرم بن چکا ہو۔

یہ مصرعے کسی خاص وقت یا حکومت کی نہیں بلکہ ہر اس نظام کی علامت ہیں جہاں ظلم کو قانون کا جامہ پہنا دیا جاتا ہے۔ فیض کہتے ہیں:
"ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد”
علامتی انداز میں قید و بند کی حالت زار بیان کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جہاں بااصول انسان (اہل دل) پابند سلاسل ہیں اور چاپلوس، جابر قوتیں آزادی سے گھوم رہی ہیں۔

فیض کے ہاں تشبیہ، استعارہ، علامت اور رمز کا ایسا گہرا استعمال ملتا ہے جو اردو نظم کو معنویت کی نئے اور اونچے مقام پر لے جاتا ہے۔ "چمک اٹھے ہیں سلاسل” اور "روزن زنداں” جیسی ترکیبیں شاعر کے اس مخصوص فکری سوچ کی عکاسی کرتی ہیں جس میں ظلم کے خلاف امید کا چراغ روشن ہے مثلاً:
"چمک اٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے
کہ اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہوگی”
اس شعر میں شاعر نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ زنجیروں کی چمک ایک خوابیدہ امید کی کرن ہے، جسے شاعر صبح کے آغاز سے تعبیر کرتا ہے۔ یعنی قید و بند اور ظلم کی رات کے بعد ایک نئی صبح کی آمد متوقع ہے۔
Untitled 30
ان کی شاعری میں مزاحمت اور جمالیات دونوں کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ فیض کی خاص بات یہ ہے کہ وہ مزاحمتی شاعری کو بھی جمالیاتی سطح پر پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری میں نہ غصہ ہے نہ نفرت، بلکہ ایک گہرا دکھ، بے بسی اور اس کے باوجود ایک عزم کی جھلک بھی ہے مثال کے طور پر:
"یوں ہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی”
اس شعر سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ شاعر نے ظلم کے خلاف ہمیشہ نرمی، خوبصورتی اور تخلیق سے مزاحمت کی ہے۔ یہ فیض کا انقلابی فلسفہ ہے کہ مزاحمت بھی حسن، فن اور وفا سے کی جائے۔

فیض کی یہ مزاحمتی نظم صرف ایک شاعرانہ تخیل ہی نہیں بلکہ ایک تاریخی دستاویز بھی ہے، جو قاری کو یاد دلاتی ہے کہ سیاسی آمریت اور ظلم کے خلاف مزاحمت کبھی بھی رنگ لاتی ہے اگرچہ وقتی طور پر جابر قوتیں غالب نظر آئیں مثلاً:
"گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں”
یہ محض شاعرانہ تسلی ہی نہیں، بلکہ تاریخ کی اس گواہی کا بیان بھی ہے کہ ظلم عارضی ہوتا ہے اور حق ہمیشہ دیرپا ہوتا ہے ظلم مٹ جاتا ہے اور سچ کو زوال نہیں۔

"نثار میں تری گلیوں کے” صرف ایک مزاحمتی نظم ہی نہیں بلکہ ایک عہد کی صدائے احتجاج بھی ہے۔ یہ نظم اردو ادب کے اس باب کی نمائندہ ہے جہاں شاعری صرف ذاتی اظہار نہیں بلکہ اجتماعی شعور، سیاسی بیداری اور سماجی جدوجہد کی زبان بن جاتی ہے۔

فیض احمد فیض نے اس نظم کے ذریعے ایک ایسا استعارتی، علامتی اور فکری ڈھانچہ ترتیب دینے کی کوشش کی ہے جو آج بھی جبر کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ یہ نظم وقت کے فرعونوں کے خلاف صدائے حق ہے اور ان اہل وفا کا مقدمہ ہے جو ظلم کے خلاف سر اٹھانے کی جرأت رکھتے ہیں۔

فیض کی یہ نظم آج کے قاری کو بھی اتنی ہی متاثر کرتی ہے جتنی اپنے وقت میں کی تھی، کیونکہ ظلم، جبر اور جدوجہد آج بھی موجود ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ چہرے بدل گئے ہیں، نظام بدل گیا ہے، مگر وہ سوال، وہ احتجاج، وہ عشقِ وطن آج بھی اسی شدت سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا اور نئے فیض پیدا ہوتے رہیں گے۔

Untitled 2025 06 27T172953.622
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے، آپ حالات حاضرہ، علم ادب، لسانیات اور تحقیق و تنقیدی موضوعات پر لکھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں