آپ نے شاید یہ سنا ہوگا کہ فلاں صاحب پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہونے کے باوجود بھی بے روزگار ہیں۔ یہ سوچ کہ تعلیم صرف نوکری حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، ہمارے معاشرے کی تنگ نظری کی عکاسی کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تعلیم اور نوکری کے درمیان کئی عوامل شامل ہیں، جیسے مہارتیں، تجربہ اور انفرادی صلاحیتیں۔ اگر کوئی شخص پی ایچ ڈی کے بعد نوکری حاصل نہیں کر پاتا، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی تعلیم رائیگاں گئی، بلکہ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ نوکری حاصل کرنے کے لیے دیگر عوامل بھی ضروری ہیں۔ تعلیم کاحقیقی مقصد خود کو بہتر بنانا اور معاشرتی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔
اسی پسماندہ سوچ کی وجہ سے اساتذہ، والدین، اور یہاں تک کہ خود علم حاصل کرنے والے طلبہ بھی صرف سمسٹر پاس کرنے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ ڈگری لے کر نوکری تلاش کریں۔ اپنی فیلڈ میں ریسرچ تو دور کی بات ہے، وہ اپنی صلاحیتوں کو بھی پالش نہیں کرتے اور پھر کسمپرسی کا شکار ہوتے ہیں کہ اب آگے کیا کریں؟ کیونکہ ہم نے تو تعلیم کو صرف سمسٹر پاس کرنے تک محدود سمجھا تھا۔ طالبِ علم میں علم کی طلب اور جستجو ہونی چاہیے نہ کہ صرف ڈگری کی۔
مغرب کی سوچ ہم سے بہت وسیع ہے اور انہوں نے تعلیم کو محض نوکری کی ضمانت نہیں سمجھا، بلکہ ریسرچ اور علم کی جستجو کو اس کا اصل مقصد مانا ہے۔ مغربی ممالک میں ریسرچ کو یونیورسٹی کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے، لیکن ہمارے ملک کی یونیورسٹیز میں اسے غیر ضروری سمجھا جاتا ہے اور نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ طلبہ بھی اس سے بے پرواہ ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب ہمیں کسی مسئلے کا حل چاہیے ہو، جیسے کہ 2020ء میں کوویڈ-19 کی ویکسین کی تیاری، تو ہم مغربی ممالک پر انحصار کرتے ہیں۔ امریکہ ریسرچ کی اہمیت کو بخوبی سمجھتا ہے۔ اس بات کا اندازہ امریکا کی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سان فرانسسکو کی Silicon Valley سے لگایا جا سکتا ہے، جہاں Apple, Intel, Google, Meta اور Tesla جیسے tech giants موجود ہیں۔ یہ سب کمپنیاں تحقیق اور تخلیق کے ذریعے دنیا میں انقلاب لے کر آئیں۔ یہ Silicon Valley ایک Tech ریسرچ hub ہے۔
ہمیں بھی آگے بڑھنے کے لیے اپنی سوچ کو وسیع کرنا ہوگا۔ ہمیں نئی ایجادات اور تحقیق کی طرف قدم بڑھانا ہوگا تاکہ ملک میں نئی جدتیں اور ترقی ہو سکیں۔ اگر طلبہ صرف امتحانات پاس کرنے کے بجائے علم کی جستجو کریں گے، تو نہ صرف وہ اپنی صلاحیتوں کو بہتر کریں گے بلکہ اپنے ملک کو بھی ترقی کے نئے راستوں پر لے جا سکیں گے۔ اس میں حکومت کو چاہیے کہ ریسرچ کے لیے بجٹ رکھیں اور انویسٹمنٹ کریں۔
ہمیں اپنے ماضی میں عظیم شخصیات جیسے ڈاکٹر عبدالقدیر خان جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا اور اس سے بھی پیچھے جائیں تو مسلمانوں میں “پدر علم کیمیا” جابر بن حیان اور ابن سینا جیسے لوگوں کو یاد کرنا ہوگا، جنہوں نے اپنی تحقیق سے دنیا میں انقلاب برپا کیا۔ ابنِ سینا کی کتاب "کینن آف میڈیسن” کو دنیا بھر میں طبی تعلیم کا اہم اور ضروری مصدر سمجھا گیا، جو 500 سال تک معالجین کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنی رہی اور جدید طب کے اصولوں کی بنیاد فراہم کی۔
اگر اساتذہ، والدین اور طلبہ کی سوچ یہی ہوگی کہ تعلیم کا مقصد صرف نوکری حاصل کرنا ہے، تو پھر ہم نئی تخلیقات اور دریافتوں کی طرف کیسے بڑھ سکتے ہیں؟ نوجوانوں کے ذہنوں میں بلند خیالات اور ترقی کی جستجو کیسے پروان چڑھے گی؟
پاکستان میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے حالیہ برسوں میں کچھ اقدامات کیے گئے ہیں۔ حکومت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کے ذریعے ریسرچ کے لیے فنڈز میں اضافہ کیا ہے اور نوجوان محققین کو حوصلہ افزائی کے لیے مختلف اسکالرشپس اور گرانٹس کا اعلان کیا ہے۔ تاہم، ابھی بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر خرچ ہونے والا بجٹ ابھی بھی دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور میڈیسن (STEM) کے شعبوں میں ریسرچ کو ترجیح دے اور نجی شعبے کو بھی اس میں شامل کرے۔
یونیورسٹیوں میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے اساتذہ کی تربیت اور جدید تدریسی طریقوں کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ، طلبہ کو عملی مہارتوں کی تربیت دینے کے لیے لیبارٹریز اور ریسرچ سینٹرز کو جدید بنانا ہوگا۔
طلبہ کو انٹرن شپس اور صنعتی تربیت کے مواقع فراہم کرنے سے نہ صرف ان کی مہارتیں بہتر ہوں گی بلکہ وہ نوکری کے بازار میں بھی زیادہ مقابلہ کر سکیں گے۔
کوویڈ-19 کے بعد ڈیجیٹل تعلیم کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں بھی آن لائن تعلیمی پلیٹ فارمز کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ دور دراز کے علاقوں کے طلبہ بھی معیاری تعلیم حاصل کر سکیں۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ مغربی ممالک کے تعلیمی ماڈلز سے سیکھے اور انہیں اپنے حالات کے مطابق ڈھالے۔ خاص طور پر، ریسرچ اور تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے والے پروگرامز کو اپنانے کی ضرورت ہے۔
معاشرے میں تعلیم کے حقیقی مقصد کے بارے میں عوامی شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ طلبہ کو صرف ڈگری کے حصول کے بجائے علم کی جستجو اور تخلیقی سوچ کی طرف راغب کریں۔
طلبہ کویہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تعلیم کا مقصد صرف نوکری حاصل کرنا نہیں، بلکہ خود کو بہتر بنانا اور معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنے تعلیمی نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالے اور ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر توجہ مرکوز کرے تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔