پاکستان میں انتخابات، خواہ قومی و صوبائی سطح پر ہوں یا ایسوسی ایشنز اور ٹریڈ یونینز کے، ایک عام روایت یہ ہے کہ امیدوار اپنی تشہیر کے لیے پلاسٹک و کپڑے کےبینرز، پینا فلیکس، کلر فل پمفلٹس اور سٹیکرز کا بے تحاشا استعمال کرتے ہیں۔ یہ مواد نہ صرف ماحول کو آلودہ کرتا ہے بلکہ انتخابات کے بعد کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دیا جاتا ہے، جس سے تصاویر اور ناموں کی پاکستان میںمعاشرتی ار مذہبی حوالے سے بےحرمتی بھی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ، ان موادوں میں استعمال ہونے والی زہریلی سیاہی اور کیمیکلز انسانی صحت کے لیے بھی خطرناک ہیں۔
لیکن ملتان کی ایک صحافی اور سماجی کارکن "انیلہ اشرف” نے اس روایت کو توڑتے ہوئے ایک منفرد اور ماحول دوست انتخابی مہم چلائی۔ انہوں نے پہلے ملتان یونین آف جرنلسٹس (MUJ) اور پھر ملتان پریس کلب کے انتخابات میں حصہ لیا اور صرف سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی انتخابی مہم چلائی، جبکہ روایتی طریقے سے کوئی پمفلٹ یا سٹیکر تقسیم نہیں کیا اور نہ ہی کوئی ایک بینر یا پینافلیکس آویزاںکیا ہے۔ ان کا یہ اقدام نہ صرف پاکستانی انتخابی تاریخ میں ایک انوکھا تجربہ تھا بلکہ اس نے ماحولیات کے تحفظ اور انتخابات میں فضول خرچی کو کم کرنے کی اہم بحث کو بھی جنم دیا۔
انیلہ اشرف کے مطابق، انہیں اس ماحول دوست مہم کے دوران کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا: جس میںسب سے پہلے روایتی سوچ کا مقابلہ تھا، کیونکہ جب وہ دفاتر میں صحافیوں سے ملتیں تو لوگ ان سے پمفلٹ یا سٹیکر مانگتے۔ جب وہ بتاتیں کہ انہوں نے کوئی پرنٹ شدہ مواد نہیں بنوایا، تو لوگ حیران ہو جاتے۔
اس طرح ووٹنگ کے دن دیگر امیدوار اور ان کے حامی ووٹرز کو بڑی تعداد میں پمفلٹ تھماتے تھے، جبکہ انیلہ کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تھا۔ وہ براہ راست ووٹرز سے اپیل کرتیں، لیکن بہت سے لوگ تصویر والا پمفلٹ مانگتے، اور جب وہ انکار کرتیں تو حیرت کا اظہار کرتے۔
انیلہ کا کہنا ہے کہ اگر وہ روایتی تشہیری مہم چلاتیں تو شاید زیادہ ووٹوں سے جیت سکتی تھیں، لیکن انہوں نے ماحول کے تحفظ کو ترجیح دی۔
ماحولیات اور سیاسی علوم کے ماہرین نے انیلہ اشرف کے اقدام کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں انتخابی مہمات کو زیادہ پائیدار اور ماحول دوست بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر علی رضا، ماحولیات کے ماہر، کہتے ہیں کہ "پاکستان میں ہر انتخابی سیزن کے بعد ہزاروں ٹن پلاسٹک اور کاغذ کا کوڑا پیدا ہوتا ہے، جو نہ صرف زمینی آلودگی کا سبب بنتا ہے بلکہ دریاؤں اور نکاسی آب کے نظام کو بھی متاثر کرتا ہے۔ انیلہ اشرف جیسے اقدامات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، جس میں ڈیجیٹل مہمات کو ترجیح دی جائے۔”
پولیٹیکل سائنس دان ڈاکٹر سمیرا اقبال کا کہنا ہے کہ "پاکستانی معاشرہ اب بھی روایتی انتخابی مہمات کو ہی اہمیت دیتا ہے، لیکن نئی نسل میں ڈیجیٹل شعور بڑھ رہا ہے۔ آنے والے سالوں میں سوشل میڈیا کی طاقت کو سمجھنے والے امیدوار ہی زیادہ کامیاب ہوں گے۔”
ترقی یافتہ ممالک جیسے کہ کینیڈا، برطانیہ اور ناروے میں ماحول دوست انتخابی مہمات کو فروغ دیا جاتا ہے۔ وہاں پرنٹ شدہ مواد کی جگہ ری سائیکل ایبل مواد یا ڈیجیٹل ایڈورٹائزنگ کو ترجیح دی جاتی ہے۔ پاکستان کو بھی اس سمت میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔
سابق صدر ہائیکورٹبار ایسوسی ایشن ملتان سید ریاض الحسن گیلانی کہتے ہیں گوکہ بار ایسوسی ایشنز کے انتخابات میںبھی تشہیر کے لئے ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والے مواد کا بہت ذیادہ استمعال ہوتا آیا ہے اور اس پر لاکھوںکے اخراجات ہیں، اس طرح ملک میںانجمن تاجران، ٹریڈ یونینز اور حتیٰ کہ سرکاری ملازمین کی یونینز کے انتخابات میںبھی صرف تشہیری مواد پر لاکھوںخرچ کئے جاتے ہیں جبکہ ملکی انتخابات میںیہ اخراجات کروڑوں تک ہوتے ہیں، جس کے لئے بار کونسلز نے سخت قوانین بنائے ہیںاور تشہیر پر پابندی عائد کرتے ہوئے خلاف ورزی پر سخت کارروائی بھی عمل میںلائی جاتی ہے، اس لئے الیکشن کمیشن اور دیگر الیکشن باڈیز کو بھی ایسے سخت قوانین بنا کرسیاسی انتخابی مہم کی تشہیر پر مکمل پابندی عائد کی جانی چاہیے.
انیلہ اشرف کے تجربے سے ثابت ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا ایک طاقتور ذریعہ ہے، خاص طور پر شہری علاقوں میں، ماحول دوست مہمات سے بجٹ کی بچت ہوتی ہے، جو عام طبقات سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کے لیے فائدہ مند ہے۔ جس میںعوامی شعور بڑھانے کی ضرورت ہے کہ ووٹ کا فیصلہ پمفلٹ دیکھ کر نہیں، بلکہ امیدوار کے کام اور ویژن کی بنیاد پر کیا جائے۔
انیلہ اشرف کی کامیابی ایک چھوٹی لیکن اہم کامیابی ہے، جو ثابت کرتی ہے کہ پاکستان میں بھی ماحول دوست انتخابی مہمات ممکن ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر سطح پر الیکشن کمیشن یا الیکشن کمیٹی و الیکشن بورڈ پلاسٹک بینرز اور غیر ضروری پرنٹنگ پر پابندی لگائے۔اس طرح سیاسی جماعتیں اور امیدوار ڈیجیٹل مہمات کو ترجیح دیں۔عوام کو یہ سمجھایا جائے کہ ووٹ کی قیمت پمفلٹ سے نہیں، بلکہ امیدوار کے کردار سے ہوتی ہے۔
اگر یہ اقدامات اپنائے جائیں، تو پاکستان نہ صرف ماحولیاتی تحفظ کی طرف بڑھے گا، بلکہ انتخابات کو زیادہ شفاف اور معیاری بھی بنایا جا سکے گا۔