اسلام آباد: مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظرثانی کیس میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی کا اختلافی نوٹ سامنے آگیا۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ نظر ثانی درخواستوں میں کسی غلطی کی نشاندہی نہیں کی گئی۔ججز کا اختلافی نوٹ میں کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے صرف مختصر حکمنامے پر نظرثانی دائر کی تھی، تفصیلی فیصلہ آئے 7 ماہ گزر چکے ہیں اور دونوں جماعتوں نے تفصیلی فیصلہ چیلنج نہیں کیا۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے فریق نہیں ہونے کا نکتہ ہی اٹھایا، اس اعتراض کا جواب تفصیلی فیصلے میں دیا جاچکا ہے اور فیصلے میں ووٹرز کے حقوق کے تحفظ کے زیادہ وسیع مسئلے پر بھی بات کی گئی ہے۔ججز نے کہا کہ بینچ کی تشکیل پر بھی ہمارے تحفظات موجود ہیں اور منصف جج سمیت اصل بینچ کے 5 ممبران کو شامل نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد جوڈیشل کمیشن میں حکومت اور سیاسی جماعتوں کی اکثریت ہے۔دونوں ججز نے 6 مئی کے مختصر آرڈر پر بھی اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ مختصر آرڈر میں کہا گیا تھا کہ ہماری رائے حتمی فیصلے میں گنی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ نہایت احترام کے ساتھ ہم اس آبزرویشن سے متفق نہیں لہذا مخصوص نشستوں پر نظرثانی درخواستیں ہم خارج قرار دیتے ہیں۔
دوسری جانب جسٹس عائشہ اے ملک نے ،چیف جسٹس آف پاکستان کے نام جاری خط میںکہا ہے کہ مؤدبانہ گزارش ہے کہ جناب جسٹس عقیل احمد عباسی اور میں نے کل سہ پہر 3:11بجےپرسی آر پی نمبر 312 آف 2024ءوغیرہ میں اپنا حکم جاری کیا تھا، جو مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی کی درخواستیں تھیں۔
اس کے بعد آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کو حکم اپ لوڈ کرنے کی ضرورت تھی۔ تاہم، بارہا کہنے کے باوجود انہوں نے کل اور آج صبح جب میں نے دوبارہ ان سے حکم اپ لوڈ کرنے کو کہا تو انہوں نے اسے اپ لوڈ نہیں کیا۔ مجھے بتایا گیا کہ وہ ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔ آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے یہ عدم تعمیل ناقابل قبول ہے۔
لہذا، میں باضابطہ طور پر درخواست کرتی ہوں کہ حکم کو فوری طور پر سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر بغیر کسی تاخیر کے اپ لوڈ کیا جائے۔ مذکورہ حکم کی ایک کاپی فوری حوالہ کے لیے منسلک ہے۔
اس خط کی ایک کاپی عدالت کے تمام معزز جج صاحبان کو جسٹس عقیل احمد عباسی اور میری طرف سے حکم کی ایک کاپی کے ساتھ بھیجی جا رہی ہے تاکہ آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے فرائض میں اس غفلت کو ان کے نوٹس میں لایا جا سکے، ایک ایسا معاملہ جس پر معمول کے مطابق توجہ دی جانی چاہیے تھی لیکن اس حکم کے معاملے میں یہ غیر واضح مشکلات کا شکار ہو گیا ہے۔
