Untitled 94

حکومت سے میڈیا اور این جی اوز کی کردار کشی کی مہم بند کرنے کا مطالبہ

لاہور:پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی)، ویمنز ایکشن فورم (لاہور)، شرکت گاہ ویمنز ریسورس سینٹر، ساؤتھ ایشیا پارٹنر شپ-پاکستان، سیمرغ، اور سینٹر فار لیگل ایڈ، اسسٹینس اینڈ سیٹلمنٹ (کلاس) وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے جاری حالیہ اشتہار میں‌صحافیوں، این جی او کے کارکنوں اور ’فری لانس‘ محققین کو ’دشمن کے پروپیگنڈے‘ کے ممکنہ آلہ کار کے طور پر پیش کرنے کی سخت مذمت کی گئی ہے.

اس سلسلے میں‌جاری تحریری بیان کے مطابق سول سوسائٹی کے نمائندوں اور آزاد میڈیا کو ایک معلوماتی جنگ کا حصہ قرار دینا انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے اور یہ ان آزادیوں کو کمزور کرتا ہے جو ایک جمہوری معاشرے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ پاکستان میں آزاد صحافی اور این جی اوز پہلے ہی نہایت سخت حالات جیسے کہ مسلسل ہراسانی، رجسٹریشن اور رپورٹنگ کی مشکل شرائط، فنڈنگ کی بلا جواز جانچ پڑتال اور مبہم سکیورٹی بیانیوں کے ذریعے پھیلائی گئی بداعتمادی کی فضا میں کام کر رہے ہیں۔ ان کے کام کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دینا ان افراد کو مزید خطرے میں ڈالتا ہے جو عوام کے حقوق کے تحفظ اور معلومات کی فراہمی کے لیے پرعزم ہیں۔

بیان میں‌کہاگیا کہ ایسے بیانیے ماضی میں نگرانی، دھمکیوں اور حتیٰ کہ صحافیوں اور انسانی حقوق کے دفاع کاروں پر جسمانی حملوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ شہریوں کو یہ ترغیب دینا کہ وہ کسی بھی ’مشکوک‘ این جی او کارکن یا رپورٹر کی اطلاع دیں، جبکہ اس کے لیے کوئی قانونی حفاظتی اقدامات موجود نہیں، غیر قانونی کارروائی، ہراسانی اور سنسرشپ کو جواز فراہم کرنے کے مترادف ہے۔

مزید یہ کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کو محض ایک ایسے آلے کے طور پر پیش کرنا جس کا مقصد ’افراتفری، خوف اور بے چینی‘ پھیلانا ہے، اظہار رائے کی آزادی پر مزید منفی اثرات مرتب کرے گا جو پہلے ہی الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ اور اس میں کی جانے والی ترامیم سمیت دیگر قوانین کے تحت پابندیوں کی زد میں ہے۔ اس طرح کی پالیسیاں آزاد صحافت کی حوصلہ شکنی کرنے کے ساتھ ساتھ ان اہم انسانی حقوق اور فلاحی خدمات میں رکاوٹ ڈالیں گی جو کئی تنظیمیں فراہم کر رہی ہیں۔

ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس مہم کو فوری طور پر ترک کرے، سول سوسائٹی کے جائز کام کو ریاست مخالف سرگرمیوں کے ساتھ خلط ملط کرنے سے گریز کرے اور ترجیحی بنیادوں پر ایک ایسا سازگار ماحول قائم کرے جہاں صحافی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں محفوظ اور آزادانہ طور پر کام کر سکیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں