WhatsApp Image 2025 02 20 at 21.51.13

سرکاری سکولوں میں تعلیمی معیار کی گراوٹ: وجوہات اور ممکنہ اصلاحات

زین العابدین عابد

ڈپٹی کمشنر ملتان سید محمد علی بخاری نے سرکاری سکولوں کی سخت مانیٹرنگ اور نئے تعلیمی ماڈل کے نفاذ کا اعلان کیا ہے، جس کا مقصد شرح خواندگی میں اضافہ اور تعلیم کے معیار کو بہتر بنانا ہے۔ انہوں نے یہ بات گورنمنٹ گرلز ہائی سکول نیو ملتان کے دورے کے موقع پر کہی، جہاں سی ای او ایجوکیشن ڈاکٹر صفدر حسین واہگہ، ڈی ای او منور کمال، ڈپٹی ڈی ای او ڈاکٹر عالیہ نکہت اور دیگر افسران بھی موجود تھے۔

ڈپٹی کمشنر نے سائنس لیب اور کلاس رومز کا معائنہ کیا اور طالبات سے سوالات کیے۔ کلاس ششم کی بیشتر طالبات نے ڈاکٹر، انجینئر اور ٹیچر بننے کی خواہش کا اظہار کیا، جبکہ ایک طالبہ نے کرافٹر بننے کی دلچسپ خواہش ظاہر کی، جس پر ڈپٹی کمشنر نے اس کے تخلیقی آئیڈیا کو سراہا۔

WhatsApp Image 2025 02 20 at 21.55.46انہوں نے کہا کہ اساتذہ بچوں کی تعلیم کے ساتھ ان کی کیریئر کونسلنگ پر بھی خصوصی توجہ دیں تاکہ ان کا مستقبل روشن ہو۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر سرکاری سکولوں کی سخت مانیٹرنگ کے لیے ای مانیٹرنگ سیل قائم کیا گیا ہے، جو تعلیمی کارکردگی کا جائزہ لے گا۔ سی ای او ایجوکیشن نے بتایا کہ ڈی ای اوز اور ڈپٹی ڈی ای اوز روزانہ کم از کم تین سکولوں کا دورہ کریں گے، جبکہ اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسرز دوسکول چیک کریں گے۔ ان وزٹس کا دورانیہ دو گھنٹے ہوگا، جس سے تعلیمی بہتری کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔

تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کا بنیادی ستون ہے،اور پاکستان میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے ہر سال نت نئے منصوبے اور اصلاحات متعارف کروائی جاتی ہیں۔ خاص طور پر سرکاری سکولوں کی بہتری کے حوالے سے ضلعی افسران اور حکومتی نمائندے وقتاً فوقتاً اعلانات کرتے رہتے ہیں۔ تاہم، زمینی حقیقت یہی ہے کہ ان اسکولوں کے معیار میں کوئی نمایاں بہتری نہیں آئی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سرکاری سکولوں کے اساتذہ خود اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں داخل کرواتے ہیں، جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر خود سرکاری سکول کے اساتذہ کو اپنے ہی تعلیمی نظام پر اعتماد نہیں، تو وہ عام شہریوں کے بچوں پر کیوں محنت کرے گا؟

پاکستان میں تعلیم کی دو بڑی اقسام ہیں، سرکاری اور نجی۔سرکاری سکولوں کو حکومت کی جانب سے وسائل اور فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں، جبکہ نجی سکول زیادہ تر کاروباری مقاصد کے تحت چلائے جاتے ہیں۔ مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سرکاری سکولوں کے اساتذہ خود اپنے بچوں کو نجی سکولوں میں بھیجتے ہیں، جس کی کئی وجوہات ہیں.

سرکاری سکولوں میں تدریس کا معیار زیادہ تر کمزور ہوتا ہے، اساتذہ کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے، اور وہ زیادہ تر تنخواہ کے حصول کو ہی اپنی اولین ترجیح سمجھتے ہیں۔سرکاری سکولز کے اکثر اساتذہ سکول آنا ضروری نہیں سمجھتے اور اگر آتے بھی ہیں تو محض حاضری لگوا کر چلے جاتے ہیں۔
سرکاری سکولز کے اساتذہ خود جانتے ہیں کہ سرکاری سکولوں کا تعلیمی نظام غیر فعال ہے، لہٰذا وہ اپنے بچوں کو ان اداروں میں داخل کرنے سے گریز کرتے ہیں۔WhatsApp Image 2025 02 20 at 22.02.35 اگر واقعی حکومت اور ضلعی افسران سرکاری سکولوں میں بہتری لانا چاہتے ہیں، تو سب سے پہلے ایک اصول واضح کرنا ہوگا کہ تمام سرکاری اساتذہ اپنے بچوں کو انہی سکولوں میں داخل کرانے کے پابند ہوں گے۔ اس پالیسی کے نتیجے میں کئی مثبت تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ مثلا جب اساتذہ کے اپنے بچے سرکاری سکولوں میں پڑھیں گے، تو وہ تدریسی معیار کو بہتر بنانے پر مجبور ہوں گے۔ وہ تدریس میں محنت کریں گے کیونکہ وہ جانتے ہوں گے کہ اس کا براہ راست اثر ان کے اپنے بچوں پر بھی پڑے گا۔

پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم کے معیارات نسبتاً بہتر ہوتے ہیں کیونکہ وہاں والدین کی سخت نگرانی ہوتی ہے، اور اساتذہ کو نتائج دینا پڑتے ہیں۔ جب سرکاری سکولوں میں بھی اساتذہ کے اپنے بچے پڑھیں گے، تو وہ اس نظام کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں گے۔سرکاری سکولوں میں بچے کے والدین کو بچے کی تعلیمی استعداد کے بارے آگاہ کیا جاتا ہے ۔

یہ سبھی جانتے ہیں کہ بہت سے سرکاری اساتذہ اسکولوں سے غیر حاضر رہنے کے عادی ہوتے ہیں، لیکن جب انہی کے بچے وہاں پڑھیں گے تو وہ لازمی طور پر حاضر ہوں گے اور تعلیمی سرگرمیوں میں دلچسپی لیں گے۔

آج عوامی سطح پر یہ تصور عام ہے کہ سرکاری سکول کمزور تعلیمی معیار کے حامل ہیں، اسی لیے متوسط اور امیر طبقے کے لوگ اپنے بچوں کو نجی اداروں میں بھیجتے ہیں۔ لیکن جب اساتذہ کے بچے بھی انہی سکولوں میں پڑھیں گے، تو عوام کا اعتماد بحال ہوگا اور والدین بلا جھجک اپنے بچوں کو یہاں داخل کرائیں گے۔

حکومت ہر سال سرکاری سکولوں کے لیے بھاری بجٹ مختص کرتی ہے ،مگر اس کا نتیجہ نظر نہیں آتا۔ جب اساتذہ کا مفاد بھی ان اداروں سے جڑ جائے گا، تو وہ ان وسائل کا بہتر استعمال کریں گے اور ان میں کرپشن کی سطح کم ہوگی۔

حکومت وقت،تعلیمی اداروں کے افسران اور ضلعی انتظامیہ کو اس سنگین مسئلے کا فوری نوٹس لینا چاہیے کہ نجی تعلیمی اداروں کے طلبہ بورڈ میں اعلیٰ پوزیشنز حاصل کرتے ہیں جبکہ سرکاری سکولوں کے طلبہ اس معیار تک پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے، حالانکہ سرکاری اساتذہ کی تنخواہیں نجی سکولوں کے اساتذہ سے تین گنا زیادہ ہیں۔ سرکاری سکولوں کے پاس وسیع و عریض عمارتیں، جدید سہولیات اور ان کی مانیٹرنگ کے لیے بیسویں اور اکیسویں گریڈ کے افسران موجود ہیں، جن کے لاکھوں روپے کے اخراجات، سفری الاؤنس اور دیگر فنڈز مختص کیے جاتے ہیں، مگر اس کے باوجود تعلیمی معیار میں کوئی نمایاں بہتری دیکھنے کو نہیں ملتی۔ WhatsApp Image 2025 02 20 at 22.06.10اس ناکامی کی سب سے بڑی وجہ اکیڈمی مافیا ہے۔ اکثر سرکاری اساتذہ سکولوں میں پڑھانے کے بجائے نجی اکیڈمیوں اور ٹیوشن سینٹرز پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ نتیجتاً، طلبہ کو کلاس روم میں وہ تعلیمی رہنمائی نہیں ملتی، جو انہیں ملنی چاہیے۔ حکومت کو فوری طور پر یہ قانون نافذ کرنا چاہیے کہ سرکاری اساتذہ ٹیوشن پڑھانے یا نجی اکیڈمی چلانے کے مجاز نہیں ہوں گے۔ ہر استاد پر لازم ہو کہ وہ کلاس روم میں ہی طلبہ کو مکمل اور معیاری تعلیم فراہم کرے۔

ہم نے دیکھا اور سنا ہے، ہر سال تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں،سکولوں کی مانیٹرنگ کے نئے منصوبے متعارف کرائے جاتے ہیں، لیکن نتیجہ ہمیشہ صفر ہی رہتا ہے۔ اگر حکومت واقعی سرکاری سکولوں کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانا چاہتی ہے تو اساتذہ کی مکمل نگرانی، اکیڈمی مافیا کے خلاف سخت کارروائی اور کلاس روم میں معیاری تدریس کو یقینی بنانا ہوگا۔ ورنہ، صرف پالیسیوں اور اجلاسوں سے تعلیمی نظام میں کوئی مثبت تبدیلی ممکن نہیں ہوگی۔

Zinulabdin Abid 2
زین العابدین عابد

اپنا تبصرہ لکھیں