اسلام آباد:سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں نظر ثانی درخواستیں منظور کرتے ہوئے 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا ہے اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھنے کا فیصلہ سنا دیاہے ۔
اس سے قبل اٹارنی جنرل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ تمام 80 لوگ پہلے مجلس وحدت المسلمین میں جا رہے تھے، اگر یہ اس جماعت میں جاتے تو مخصوص نشستیں لے سکتے تھے، مجلس وحدت المسلمین ایک نشست جیتی ہوئی تھی۔
جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ کہا کہ کاش یہ آپ سے مشورہ کرتے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر ایم ڈبلیو ایم میں جاتے تو عوامی منشا کا مسئلہ نہ بنتا نہ یہ کیس آتا۔
پی ٹی آئی رہنما کنول شوزب روسٹرم پر آئیں ۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے کوئی بات کہنی ہے تو کہہ لیں، آپ نے سنی اتحاد میں شمولیت کیوں کی؟ پی ٹی آئی میں کیوں نہیں گئے؟ کنول شوزب نے کہا کہ ہمارا 24 دسمبر کو انتخابی نشان چھین لیا گیا۔
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل کرنے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا ۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے کہ مختصر فیصلہ آج ہی سنایا جائے گا،مختصر حکمنامے کا انتظار کریں۔
سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس صلاح الدین پنہور نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا ، جسٹس صلاح الدین پنہور، حامد خان کے اٹھائے گئے اعتراضات پرالگ ہوئے۔ ایڈووکیٹ حامد خان نے کہا کہ آپ کا بینچ سے الگ ہونا قابل ستائش ہے۔
جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے کہ یہ ستائش کی بات نہیں ہے، ایک پارٹی سے دو وکیل دلائل کے حقدار نہیں ہوتے۔ جسٹس جمال مندو خیل نے کہا پھر بھی آپ کو دلائل کا موقع دیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ کا حامد خان سے مکالمہ ہوا، جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیئے کہ کل آپ نے اس عدالت کو ڈی چوک بنایا، کس نے آپ کو یہ حق دیا ہے؟ ۔
جسٹس مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ میں اعتراف کرتا ہوں ہم نے اس کیس میں اپنے اختیارات کو کھینچ کر وسیع کیا، ہم اپنے دائرہ اختیار میں رہتے تو آج جو حالات ہیں ان کا سامنا نہ کر رہے ہوتے، سنی اتحاد کونسل کو 13 ججز نے کہا آپ کا حق نہیں بنتا، ہمارے سامنے دو فریق ہوں گے تو ہم ان دو میں فیصلہ کریں گے، کیا 12رکنی بینچ اس کیس پر نظرثانی کر سکتا ہے؟
جسٹس مندوخیل کا کہناتھا کہ ہم کوشش کریں گے آج ہی اس کیس کا فیصلہ کریں، مختصر حکمنامے سے متصادم تفصیلی فیصلہ برقرار نہیں رہ سکتا، مختصرآرڈر میں ہم اتنا ہی کہتےہیں وجوہات بعد میں دیں گے، شارٹ آرڈر تو بالکل ہی مختصر ہوتا ہے، اپیل اور نظرثانی میں فرق ہوتا ہے، نظرثانی میں کوئی غلطی ہو تو اسے درست کیا جاتا ہے، میں نے اگرغلطی کی ہوگی تو میں ہی اسے درست کروں گا، میں کہہ سکتا ہوں ہاں یہ حقائق پہلے میرے سامنے نہیں تھے غلطی ہوگئی لیکن میں اپنے ساتھی ججز کا دیا گیا فیصلہ نظرثانی میں نہیں بدل سکتا، دوسرے ججز کا فیصلہ مجھے پسند نہ ہو تو نظرثانی میں بدل نہیں سکتا۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہناتھا کہ ہم نے ایک پارٹی کو نہیں عوام کے حق کو دیکھ کر مکمل انصاف کیا، پی ٹی آئی نے کبھی بھی مخصوص نشستوں پر دعویٰ جتایا ہی نہیں تھا، نہ الیکشن کمیشن، نہ ہائیکورٹ نہ یہاں انہوں نے مخصوص نشستیں مانگیں۔
سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے نظرثانی کیس کی سماعت کے درمیان جسٹس جمال مندوخیل اور وکیل حامد خان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔
سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے نظر ثانی کیس کی سماعت کے دوران حامد خان نے کہا کہ مثالیں موجود ہیں آپ یہ سماعت نہیں کر سکتے، اس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہاں لکھا ہے کہ ہم کیس کی سماعت نہیں کر سکتے، سپریم کورٹ رولزمیں دکھائیں کیسے نہیں کرسکتے سماعت؟
مخصوص نشستوں سے متعلق نظر ثانی کیس سننے والا سپریم کورٹ کا بینچ ٹوٹ گیا
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اگر آپ نے دلائل دینا ہیں تو دیں ورنہ واپس کرسی پر بیٹھ جائیں، یہ سپریم کورٹ ہے، مذاق بنانے کی اجازت نہیں دیں گے، آپ اچھے وکیل ہیں مگر جو آپ نےکیا ہے یہ اچھے وکیل کارویہ نہیں ہے۔
اس موقع پر حامد خان نے جسٹس مندوخیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ اتنی سختی کیسے کرسکتے ہیں؟ میں سپریم کورٹ کی عزت کرتا ہوں آپ میرے کنڈکٹ پر بات کیسے کرسکتے ہیں، آپ دوسروں کو بات نہیں کرنے دیتے، سن تو لیں ، عزت سے بات کریں۔
وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ کیس کی مثال ہے، قاضی فائزعیسیٰ کیس میں طےہوا اصل کیس سےکم ججز نظرثانی کیس کی سماعت نہیں کرسکتے، اس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ قاضی فائز عیسی کا نام نہ لیں آپ سپریم کورٹ رول پڑھیں، حامد خان نے جواب دیا میں کیوں قاضی فائز عیسی کا نام نہ لوں؟ اس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ ہمیں سختی کرنا آتی ہے، آپ کو کہا ہے رول پڑھیں۔
حامد خان نے جسٹس جمال مندوخیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ غصے کی حالت میں ہیں یہ سماعت نہ کریں، اس پر جسٹس مندوخیل نے جواب دیا مائنڈ یور لینگویج، میں کس حالت میں ہوں مجھے معلوم ہے، میں اس ادارے کی خاطر اپنی والدہ کی فاتحہ چھوڑ کرآیا ہوں آپ مذاق پر تُلے ہیں۔
وکیل حامد خان نے دلائل دیے کہ 13 ججز کے فیصلے کے خلاف 10 جج بیٹھ کر سماعت نہیں کرسکتے، اس پر جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ 13 میں سے الگ ہونے والے ججز کی رائے بھی شمار ہوگی۔
وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کا ہم احترام کرتے ہیں مگر 26 ویں ترمیم ہم نے نہیں پارلیمنٹ نے کی، آپ نے 26 ویں ترمیم کے خلاف ووٹ نہیں دیا، آپ نے بائیکاٹ کیا، جب تک 26 ویں ترمیم آئین کا حصہ ہے ہم اس کے پابند ہیں یا تو آپ اس سسٹم کو تسلیم کر لیں یا پھر وکالت چھوڑ دیں۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں حامد خان کا بینچ پر اعتراض مسترد کردیا۔
سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواستوں پر آج 17ویں سماعت تھی، سپریم کورٹ کے 13 رکنی فل کورٹ نے 12 جولائی 2024 کو 8 ججز کی اکثریت سے نشستیں پی ٹی آئی کو دیں۔
سپریم کورٹ میں جولائی 2024 میں مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور اگست میں الیکشن کمیشن نے نظر ثانی درخواستیں دائر کیں۔ سپریم کورٹ کے 13 رکنی آئینی بینچ میں 6 مئی کو نظرثانی درخواستیں مقرر کیں۔
آئینی بینچ سے جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی 6 مئی کو درخواستیں مسترد کر کے الگ ہوئے جبکہ 17ویں سماعت پر جسٹس صلاح الدین پنہور نے کیس سننے سے معذرت کی۔
الیکشن کمیشن، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اپنی تحریری معروضات بھی جمع کرائیں
سنی اتحاد کونسل کی جانب سے فیصل صدیقی، حامد خان نے دلائل دیے اور پی ٹی آئی کی جانب سے سلمان اکرم راجا پیش ہوئے۔