وجیہہ اسلم
پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں اقلیتی برادری کی ایک بڑی تعداد مقیم ہے۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ضلع ننکانہ صاحب پوری دنیا میں سکھ مذہب کے بانی گرو بابا نانک کی پیدائش کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے، پاکستان میں سکھ اقلیت کا ایک اہم مرکز ہے۔ اس علاقے کو سکھ برادری کے مذہبی اور ثقافتی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے کچھ عرصہ قبل ننکانہ صاحب شمشان گھاٹ کی مرمت کے لیے فنڈز جاری کیے تھے۔
تاہم، یہ فنڈز ابھی تک استعمال ہوئے یا نہیں جانئے اس رپورٹ میں ،اس حوالے سے، میں نےبطور صحافی 2023 میں ایک سٹوری کی تھی جس میں ننکانہ صاحب شمشان گھاٹ خستہ حالی پر حکومت کیتوجہ دالونے کی کوشش کی تھی۔سٹوری میں بتایا گیا تھا کہ ننکانہ صاحب کا شمشان گھاٹ مرمت کی جانی چاہے۔2016 اور 2017 میں شمشان گھاٹ کی مرمت اور اس کے ساتھ ایک اور نئی سمادی کی تعمیر کرنے کے لئے حکومت نے ٹینڈر دیا جو کہ منظور بھی ہوا۔
تحریک انصاف کے سابق پارلیمانی سیکرٹری مہندار پال سنگھ نے شمشان گھاٹ کی تعمیر کے لئے اقدامات بھی کئے مگر حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے یہ منصوبہ مکمل نہیں ہو پایا تھا ۔2022-2023 میں ننکانہ صاحب شمشان گھاٹ کےلئے حکومت نے 14ملین کی رقم اس پروجیکٹ کے لئے مختص کی مگر سابق حکومت کے ختم ہونےکے ساتھ یہ سلسلہ بھی رک گیاتھا۔
ننکانہ صاحب کے ڈپٹی کمشنر محمد ارشاد کا کہنا ہے کہ’ ہم حکومت سے کوئی فنڈ نہیں لیتے ہاں اگر کوئی حکومت کوئی فنڈ دیتی بھی ہے تو وہ اپنے میکنیزم سی ایم ڈبلیو کے ذریعے کام کرواتی ہے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ یہ الگ بات ہے کہ سی ایم ڈبلیو کی اپنی صوابدی سے فنڈزہماری شراکت کے ساتھ کسی بھی پروجیکٹ میں استعمال کرے۔
پنجاب حکومت کی جانب سے منظور ہونے والے 14ملین سے کیا ننکانہ صاحب شمشان گھاٹ کی مرمت ہوئی ہے؟یہ بات ابھی تک پوشیدہ ہے ۔اس سلسلے میں 2013 سے سکھ کمیونٹی کے گردواروں کے دیکھ بھال کے کاموں میں خود کو وقف کرنے والے گروجیت سنگھ میپل کا کہناہے کہ’حال ہی میں شمشان گھاٹ میں جو کام ہوئے ہیں وہاں کی لوکل ننکانہ صاحب کمیٹی کے ذریعے ہو ئے ہیں جس میں انکے والد بھی شامل تھے۔گروجیت سے جب سوال کیا گیا کہ کیا حکومت کی جانب سے منظور ہونے والے رقم بھی اس کام میں شامل تھی؟ وہ پہلے تو سن کے حیران ہوئے پھر کہتے کہ ’ اس بارے میں انہیں کوئی علم نہیں ہاں مگر اس بات کو تسلم کرتے ہیں کہ شمشان گھاٹ کی چھت اور شمشان گھاٹ گزشتہ دو سالوں سے خاستہ حال تھا جس کی اب سکھ کمیونٹی کی جانب سے مرمت ہو چکی ہے۔
پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 60,000 سکھ ہیں، جن میں سے زیادہ تر پنجاب میں رہتے ہیں۔کسی بھی ریاست میں انسان اپنے مذہب کے مطابق خوشی کے موقوں میں ہر طرح کے حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر لیتا ہے مگر اپنے پیارے کے آخری رسومات بھی مذہبی عقائد کے مطابق نہ ادا کرنے کا غم سے بڑا کو ئی غم نہیں ہوتا۔
ننکانہ صاحب کے رہائشی سماجی کاموں سے وابستہ مہندر سنگھ مٹھا کا کہنا ہے کہ حکومت نے اگر کوئی فنڈزدیئے ہیں تو وہ لگ گئے ہوں گے کیونکہ شمشان گھاٹ میں مرمت کے ہوئے ہیں مگر نہیں پتہ کہ فنڈز حکومت کے تھے۔مہندر سنگھ نے مزید بتایا کہ’شمشان گھاٹ میں بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی کمروں کی تعداد برانڈے نہیں تھے۔شمشان گھاٹ میں سب سے اہم جگہ’سمادی ‘جہاں پر چیتا کو آگ لگائی جاتی ہے۔اس سمادی کی مرمت شامل تھی کیونکہ وہ بہت پرانی ہو گئی تھی۔اس کی جگہ اب شمشان گھاٹ میں ایک نئی سمادی بن گئی ہےاس کی چھت بن گئی جو کہ آدھی سے زیادہ گر گئی تھی‘‘۔
ننکانہ صاحب میں پنجاب بھر سے سکھ برادری اپنے پیاروں کی آخری رسومات ادا کرنےکےلئے آتی ہے ۔ملک بھر سے جب سکھ برداری کے لوگ اپنے پیاروں کی آخری رسومات کے لئے آتے ہیں وہ یا تو اپنے رشتہ داروں کے گھروں میں رہائش اختیار کرتےہیں یا پھر ننکانہ صاحب گردوارے میں رہتے ہیں۔
مقامی سطح پر بات کی جائے تو مہندر سنگھ مٹھا کہتے ہیں کہ’ بجلی کے بل کا بہت بڑ امسئلہ ہے،چونکہ شمشان گھاٹ میں بجلی کا بل اگر ٹائم سے ادا نہ کی اجائے تو وزپڈا والےمیٹر کاٹ جاتے ہیں ،دوسرا راستہ ہموار نہیں اور تیسرا سٹریٹ لائٹ بھی اکثر خراب ہو جاتیں ہیں۔یہ وہ سب مسائل ہے جومقامی سطح پر کمیونٹی کے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت حل کرتے رہتے ہیں ۔
مسلم لیگ ن کے سینئر وائس پریزیڈنٹ پنجاب مینارٹی ونگ،سورجیت سنگھ کنول کا کہنا ہے کہ ’ کہ ننکانہ صاحب شمشان گھاٹ میں ان تک جو بھی کام ہوا ہے وہ یہاں کی لوکل کمیونٹی نے کیا ہے،سرکار کی جانب سے کوئی رقم نہیں کیا خرچ کی گئی۔جس دن سرکار کام کرے گی میں حلف سے کہتا ہوں کہ ایک ایک پیسے کا بتاوں مگر جب سنگت ہماری کیمونٹی نے کی ہو تو میں انہیں کا نام لوں گا۔
شمشان گھاٹ کے حوالے سے اپنے قارین کی کے معلومات کے لئے 15 جولائی 2021 میں سابق وفاقی وزیر برائے مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی ڈاکٹر نور الحق قادری نے لاہور میں دریائے راوی کے بابو صابو چوک میں شمشان گھاٹ کا افتتاح کیا تھا۔ 2006 میں جنرل پرویز شرف کے دور میں لاہور میں مقیم سکھ اور ہندو برداری کےلئے اپنے پیاروں کی آخری رسومات کے لئے 34کنال اراضی شمشان گھاٹ کے لئے مختص کی گئی تھی۔یہ جگہ ریائے راوی کے قریب بابو صابو موٹروے انٹر چینج پر دی گئی۔17کنال زمین سکھ کمیونٹی کو 17کنال ہندو کمیونٹی میں تقسیم کی اگئی۔ یہ تقسیم اینٹوں کی دیوار کے ذریعے کی گئی ہے۔دونوں کے شمشان گھاٹ کے باہر الگ الگ تختیاں لگی ہیں۔مگر افسوس کی بات ہے کہ سکھ اور ہندو کمیونٹی کے بننے والے شمشان گھاٹ کو جانے والا راستہ کچا ہے جو کہ خراب موسم میں ی پریشانی کا باعث بنتا ہے ۔پنجاب پھر سے اور لاہور سے تعلق رکھنے والی سکھ کمیونٹی اپنے پیاروں کی آخری رسومات کے لئے ننکانہ صاحب شمشان گھاٹ ہی جاتی ہے جس کی بڑی وجہ سہولیات کا فقدان ہے۔
تحریک انصاف کے سابق پارلیمانی سیکرٹری مہندر پال سنگھ کا کہنا ہے کہ’ میں سو فیصد یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جو حکومتی فنڈز پنجاب حکومت نے دو سال پہلے ننکانہ صاحب شمشان گھاٹ کی مرمت کے لئے جاری کئے تھے وہ ابھی تک وہاں خرچ نہیں ہوئے‘‘۔ننکانہ صاحب کی لوکل سکھ کمیونٹی اپنی مدد آپ کے تحت سب کام کر رہے ہے۔انہوں ے مزید کہا کہ ’یہاں ایک بات کی میں وضاحت کر دوں حکومت کی طرف سے فنڈز کے اعلان کے بعد اس کی ڈرافٹنگ ہو تی ہے،اگر کسی بھی فنڈز کی ڈرافٹنگ ہو جائے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ فنڈز اب حکومتی خزانے سے ادا ہونگے،حیران کن بات ہے کہ وہ فنڈز ہے کہاں؟
ہندو کمیونٹی عرصہ دراز سے لاہور کے بالمیکی قبرستان میں اپنےپیاروں کی تدفین کر رہی ہے ۔اس کی سب سے بڑی وجہ شمشان گھاٹ کا نہ ہونا تھا۔ بابو صابو پر بننے والے شمشان گھاٹ مین سہولیات کا فقدان ایک وجہ جبکہ دوسری بڑی وجہ انتم سنسکار کے لئے بہر پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔اس بارے میں لاہور سے تعلق رکھنے والے سماجی تنظیم ہندو سدر سبھاکے صدر امرناتھ رندھاوا کا کہنا ہے کہ ’ہندو بردادری دریائے راوی کے قریب گاؤ شالا میں ہندوؤں برادری اپنے مرنے والوں کا انتم سنسکار کرتی تھی۔ بعدازاں مسلمان کمیونٹی کی جانب سے چیتا کے جلنے کا عمل چونکہ دو روز تک جاری رہتا تھا تو اعتراضات کی وجہ سے اس شمشاد گھاٹ کو استعمال کرنا بند کر دیا جبکہ اب اس شمشاد گھاٹ کا کوئی بھی نام ونشان نہیں ہے۔لاہور میں جی ٹی روڈ (گرینڈ ٹرنک روڈ) پر واقع یو ایم ٹی یونیورسٹی کے بالکل سامنے بدھو اوا بالمیکی قبرستان موجود ہے ۔ہندو برادری کا لاہور شہر میں یہ واحد قبرستان جوکہ ماضی میں ایک متنازعہ قبرستان بھی رہا ہے ۔ مقامی ہندوؤں کے مطابق یہ قبرستان 1830 سے اسی جگہ موجود ہے اور یہاں ہندو برادری اپنے مردوں کو دفن کرتی آ رہی ہے ۔
ننکانہ صاحب ،سکھ برادری کے لئے مذہبی اور ثقافتی لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر سے سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے سکھ ننکانہ صاحب آتے ہیں۔مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ بیرون ملک سےآنے والے سکھ یاتری میں سے اگر کسی کی وفات ہو جائے تو وہ ننکانہ صاحب شمشان گھاٹ میں ہی آخری رسومات ادا کرتےہیں۔حکومت پنجاب کو چاہیے کہ ننکانہ صاحب شمشان گھاٹ کو انتظامی اور تعمیراتی لحاظ سے منظم اور تجدیدی بنانے کی کوشش کرے۔