کراچی: برطانوی جریدے کے مطابق پاکستان میں شدید گرمی حاملہ خواتین اور نومولود کیلئے سنگین خطرہ ہے۔برطانوی جریدے اکنامسٹ کے مطابق، بڑھتا ہوا درجہ حرارت قبل از وقت پیدائش، مردہ پیدائش اور دیگر پیچیدگیوں کے امکانات میں نمایاں اضافہ کرتا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق گرمی کی لہریں قبل از وقت پیدائش کے امکان کو ایک چوتھائی سے زیادہ بڑھا دیتی ہیں۔ پیدائش سے ایک ماہ قبل اوسط درجہ حرارت میں صرف 1 ڈگری سینٹی گریڈ اضافے سے قبل از وقت پیدائش کا امکان تقریباً 4 فیصد بڑھ جاتا ہے۔
جریدے نے لکھا کہ20 سالہ سگوبائی، جو سندھ کے دیہی علاقے میں تیسری بار حاملہ ہیں، نے بتایا کہ 49 ڈگری سینٹی گریڈ کی گرمی میں وہ بار بار چکر اور پانی کی کمی کا شکار ہوئیں۔ ان کے بقول، وہ اپنے اور اپنے بچے کی صحت کے حوالے سے شدید فکرمند ہیں۔
کراچی کی نجی یونیورسٹی میں ڈاکٹر جے داس کی سربراہی میں جاری تحقیق کو دنیا کا سب سے بڑا مطالعہ قرار دیا جا رہا ہے، جس میں اب تک 400 حاملہ خواتین شامل ہیں اور آئندہ 6ہزار مزید خواتین کو شامل کیا جائے گا۔یہ تحقیق پاکستان کے دور دراز علاقوں میں کی جا رہی ہے جہاں نہ انٹرنیٹ ہے اور نہ ہی فون کی سہولت۔ حاملہ خواتین کے ٹیسٹ، الٹرا ساؤنڈ اور 24 گھنٹے درجہ حرارت کی پیمائش کی جا رہی ہے تاکہ گرمی کے اثرات کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق حمل کے دوران جسمانی تبدیلیاں ایسی ہوتی ہیں جو ایک خاتون اور اس کے پیدا ہونے والے بچے کو بڑھتے درجہ حرارت کیلئے خاص طور پر کمزور بنا دیتی ہیں۔حاملہ خاتون کا میٹابولزم بڑھتا ہے تاکہ بڑھتا جنین سہارا مل سکے، جس سے اضافی گرمی پیدا ہوتی ہے جسے جسم کو ختم کرنا پڑتا ہے۔ خون کا حجم 50 فیصد تک بڑھ جاتا ہے، جس سے دل پر کام کا بوجھ بڑھتا ہے۔
پانی کی کمی اور غذائی قلت زیادہ آسانی سے ہوتی ہے اور ماں اور بچے دونوں کیلئے زیادہ خطرات پیدا کرتی ہے۔ خاتون کا مدافعتی نظام تبدیل ہو جاتا ہے، جس سے وہ بعض انفیکشنز کا زیادہ شکار ہو جاتی ہے۔اسی طرح، نو زائیدہ بچوں کو اپنے جسم کا درجہ حرارت کنٹرول کرنے اور بیماریوں سے لڑنے میں دشواری ہوتی ہے۔ ان واضح مسائل کے باوجود، عالمی تپش اور خطرناک حمل کے درمیان تعلق حال ہی میں قائم ہوا۔
ڈاکٹر اینا بونیل کا کہنا ہے کہ بلند درجہ حرارت زچگی کی صحت میں ہونے والی دہائیوں کی پیش رفت کو منسوخ کر رہا ہے۔ عالمی سطح پر ہر سال 45 لاکھ سے زائد خواتین اور بچے حمل یا زچگی کے دوران موت کا شکار ہوتے ہیں، جن میں اضافہ بڑھتی ہوئی گرمی کے باعث ہو رہا ہے۔
چین میں 2010 سے 2020 کے دوران گرمی کی لہروں کی وجہ سے سالانہ اوسطاً 13262 قبل از وقت پیدائشیں ہوئیں، جن میں سے ایک چوتھائی موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ تھیں۔
بھارت میں 2001 سے اب تک 47000 اور نائجیریا میں 31700 نوزائیدہ بچوں کی اموات گرمی اور موسمیاتی تبدیلی سے منسلک کی گئی ہیں۔افریقہ میں 2009 تک موسمیاتی تبدیلی کے باعث پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی تعداد دگنی ہو گئی تھی، اور ماہرین کے مطابق 2049 تک یہ تعداد دوبارہ دگنی ہو سکتی ہے۔
صرف چین میں گرمی سے متعلق قبل از وقت پیدائشوں کے باعث ہر سال ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر داس کی ٹیم پاکستان میں گھروں کی سطح پر سستے اور آسان اقدامات آزما رہی ہے، جیسے چھتوں پر سایہ دار کینوس لگانا اور دیواروں پر عکاسی کرنے والا رنگ کرنا تاکہ گرمی کے اثرات کم کیے جا سکیں۔
تاہم ماہرین کہتے ہیں کہ عالمی سطح پر اس مسئلے کو اب بھی نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے بیشتر موسمیاتی منصوبوں اور ڈبلیو ایچ او کے "ہیٹ ہیلتھ ایکشن پلانز” میں زچگی کی صحت کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دی گئی۔
پروفیسر ڈیبرا جیکسن کے مطابق صورتحال بدلنے کی امید ہے کیونکہ عالمی ادارے اب اس پہلو پر توجہ دے رہے ہیں، لیکن مؤثر نتائج کے لیے فوری اور بڑے پیمانے پر اقدامات ناگزیر ہیں۔
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث شدید گرمی سے حاملہ خواتین اور بچوں کی صحت متاثر ہونے کے ساتھ مون سون میں طوفانی بارشیں اور سیلاب بھی اموات میں اضافہ کر رہا ہے.
حاملہ خواتین اور بچوں کو نامساعد حالات کے باعث ناگہانی آفات کے باعث فوری منتقل کرنے میں بھی درپیش دشواریوں کے باعث ان کے لئےمحفوظ مقامات کی تعمیر کی تجویز بھی شامل ہے.