سید خالد جاوید بخاری
انسان صدیوں سے زمین کے رازوں کو جاننے کی جستجو میں رہا ہے۔ زمین کی تہوں، اس کے اندرونی درجہ حرارت، لاوے کے بہاؤ اور مقناطیسی قوتوں کے بارے میں تحقیق ہمیشہ سے سائنسی دنیا کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں ایک سنسنی خیز دعویٰ منظرِ عام پر آیا کہ زمین کی گہرائیوں میں موجود لاوا تیزی سے اوپر کی طرف بڑھ رہا ہے اور زمین کا اندرونی نظام اپنی گردش کی سمت تبدیل کر رہا ہے۔ اس دعوے نے دنیا بھر کے سائنسی حلقوں کو چونکا دیا۔
لیکن سوال یہ ہے: کیا واقعی ایسا ہو رہا ہے؟ اگر ہاں، تو اس کے اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟ اور اگر یہ صرف قیاس آرائی ہے تو موجودہ مستند سائنسی تحقیق ہمیں کیا بتاتی ہے؟
زمین کی ساخت کے سائنسی پس منظر کا جائزہ لیںتو زمین بنیادی طور پر چار بڑی پرتوں پر مشتمل ہے، جن میں کریسٹ (Crust) – سب سے اوپر کی پرت، جس پر ہم رہتے ہیں۔مینٹل (Mantle) – یہ پرت تقریباً 2,900 کلومیٹر گہری ہے اور زیادہ تر ٹھوس مگر بہاؤ کی صلاحیت رکھنے والے مادے پر مشتمل ہے۔بیرونی کور (Outer Core) – یہ مائع دھاتوں (خاص طور پر لوہا اور نکل) پر مشتمل ہے اور زمین کے مقناطیسی میدان کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔اندرونی کور (Inner Core) – یہ ٹھوس ہے اور انتہائی زیادہ دباؤ اور حرارت کے تحت موجود ہے، جبکہ مینٹل ہی وہ حصہ ہے جہاں سے لاوا (magma) مختلف ارضیاتی عمل کے ذریعے اوپر آتا ہے اور آتش فشاں پھٹتے ہیں۔
ناسا کی مبینہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ دس برسوں میں لاوا 130 کلومیٹر کی گہرائی سے اوپر آکر 160 کلومیٹر کی سطح تک پہنچ گیا ہے۔ یہ بیان سائنسی نقطۂ نظر سے کئی سوالات کھڑا کرتا ہے.سائنسی تحقیق کے مطابق زمین کی lithosphere اور asthenosphere کی سرحد عام طور پر 50 سے 200 کلومیٹر کے درمیان ہوتی ہے۔یہاں معمولی مقدار میں پگھلا ہوا پتھر (جزوی تحلیل) موجود رہتا ہے، جس کی مقدار زیادہ سے زیادہ 0.7 فیصد تک ہوتی ہے۔لہٰذا لاوے کے "اوسط حجم” کو 30 کلومیٹر اوپر آنے کا دعویٰ کسی مستند تحقیقی جریدے یا ناسا کی شائع کردہ رپورٹ میں موجود نہیں۔
حوالہ: Phys.org – mantle میں جزوی پگھلاؤ کی تحقیق
زمین کا بیرونی کور مائع دھاتوں پر مشتمل ہے۔ اس میں حرکت (flow) کے نتیجے میں برقی رو پیدا ہوتی ہے جسے geodynamo کہا جاتا ہے، اور یہی زمین کے مقناطیسی میدان کو تشکیل دیتا ہے۔تاریخ میں کئی مرتبہ زمین کے مقناطیسی قطبین (North اور South) الٹ چکے ہیں، لیکن یہ عمل لاکھوں سال میں ہوتا ہے، نہ کہ چند دہائیوں میں۔موجودہ تحقیق کے مطابق مقناطیسی قطبین میں "ہلکی سی حرکت” ضرور دیکھی گئی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگلے پانچ یا دس سال میں قطبین مکمل طور پر اُلٹ جائیں گے۔
حوالہ: Scientific American – magnetic pole reversal research
یہ دعویٰ کہ 2030 تک زمین کی سطح کا درجہ حرارت 65 ڈگری سیلسیس تک پہنچ جائے گا اور زندگی آگ کی لپیٹ میں آ جائے گی، سائنسی طور پر درست نہیں۔عالمی درجہ حرارت میں اضافہ بنیادی طور پر ماحولیاتی تبدیلی (climate change) اور انسانی سرگرمیوں (گرین ہاؤس گیسز) کی وجہ سے ہے۔موجودہ ماحولیاتی رپورٹس کے مطابق اگر شدید ترین حالات بھی رونما ہوں تو 2100 تک اوسط عالمی درجہ حرارت زیادہ سے زیادہ 4–5 ڈگری سیلسیس بڑھنے کا امکان ہے، نہ کہ 65 ڈگری۔
حوالہ: IPCC Climate Report 2023
ناسا کی اس مبینہ رپورٹ میں جو دعوے کیے گئے (لاوا کا اوپر آنا، گردش کی سمت بدلنا، اور قطبین کا تیزی سے الٹ جانا)، وہ فی الحال سائنسی بنیادوں پر ثابت شدہ نہیں ہیں۔تاہم یہ سچ ہے کہ زمین کے اندرونی حصے میں مسلسل حرکت اور تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں، اور یہ تبدیلیاں زلزلوں، آتش فشانی عمل اور مقناطیسی میدان پر اثرانداز ہو سکتی ہیں۔اصل خطرہ جو انسانیت کو درپیش ہے وہ موسمیاتی تبدیلی (climate change) ہے، جو تیزی سے ہمارے ماحول، درجہ حرارت ، برفانی پہاڑوں اور سمندری سطح پر اثر ڈال رہا ہے۔
زمین ایک زندہ سیارہ ہے جو مسلسل حرکت اور تبدیلی میں ہے۔ اس کے اندر ہونے والے عمل کو جانچنے کے لیے سائنسی تحقیق جاری ہے۔ غیر مصدقہ یا مبالغہ آمیز دعوے اگرچہ خوف پھیلاتے ہیں، لیکن سائنسی تحقیق ہمیں حقیقت کے قریب لاتی ہے۔ اصل ذمہ داری یہ ہے کہ ہم زمین کے ماحول کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی روش بدلیں، کیونکہ اصل خطرہ زمین کے اندرونی لاوے سے زیادہ ہماری اپنی انسانی سرگرمیوں سے ہے۔
سینیئر قانون دان ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔