ہراسگی کسی بھی معاشرے کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے، خاص طور پر جب یہ تعلیمی اداروں میں سر اٹھاتی ہے، جہاں نوجوان نسل اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے قدم رکھتی ہے۔ پاکستان میں جامعات اور دیگر تعلیمی اداروں میں ہراسگی کے واقعات عام ہوتے جا رہے ہیں، مگر بدقسمتی سے، بیشتر واقعات رپورٹ نہیں ہوتے۔ حالیہ دنوں میں جامعہ مالاکنڈ میں پیش آنے والا واقعہ اس حقیقت کو مزید اجاگر کرتا ہے کہ طالبات کو اب بھی تعلیمی اداروں میں غیر محفوظ ماحول کا سامنا ہے۔ اس واقعے میں ایک طالبہ کو مبینہ طور پر جنسی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا، جس پر طلبہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید احتجاج کیا۔ سوشل میڈیا پر اس واقعے کی خبریں عام ہوئیں اور عوام کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ جامعہ کی انتظامیہ نے تحقیقات کا عندیہ دیا، مگر اس واقعے نے پاکستان میں تعلیمی اداروں میں خواتین کے تحفظ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے.ہم نے پاکستان کی مختلف جامعات میں زیرِ تعلیم طالبات سے اس مسئلے پر بات کی۔ ان میں سے زیادہ تر نے یہ تسلیم کیا کہ انہیں کلاس رومز، ہاسٹلز، لائبریری، یونیورسٹی بس سروس، اور یہاں تک کہ آن لائن فورمز پر بھی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک طالبہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ "ہم اکثر اساتذہ اور مرد طالب علموں کی جانب سے نازیبا رویے کا سامنا کرتی ہیں، مگر کوئی ہماری بات سننے والا نہیں ہوتا۔ بعض اوقات اگر ہم شکایت کریں تو ہمیں ہی موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے اور ہمارے کردار پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔” اسی طرح، ایک اور طالبہ نے کہا کہ "یونیورسٹی کی ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا بعض اوقات خوفناک ہو جاتا ہے، کیونکہ وہاں اکثر نامناسب جملے سننے کو ملتے ہیں۔ ہم زیادہ تر خاموش رہنے پر مجبور ہوتے ہیں، کیونکہ اگر آواز اٹھائیں تو گھر والے تعلیم ختم کرانے کی دھمکی دیتے ہیں۔ بعض اساتذہ کی جانب سے بھی غیر پیشہ ورانہ رویہ دیکھنے کو ملتا ہے، جس کی وجہ سے ہمیں شدید ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔”
گزشتہ چند سالوں میں پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ہراسگی کے کئی کیسز سامنے آئے ہیں۔ 2022 میں، ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کو 150 سے زائد شکایات موصول ہوئیں، جن میں زیادہ تر خواتین نے ہراسگی کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کیسز میں زیادہ تر اساتذہ، یونیورسٹی اسٹاف اور سینئر طالب علموں کے ملوث ہونے کی اطلاعات ملی ہیں۔ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ کیسز رپورٹ کیے گئے۔ 2023 میں، جامعہ بہاؤالدین زکریا ملتان، قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد اور سندھ یونیورسٹی میں ہراسگی کے بڑے کیسز سامنے آئے، جہاں طالبات نے متعلقہ یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف مظاہرے بھی کیے۔ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق، 70 فیصد طالبات نے اعتراف کیا کہ انہیں کبھی نہ کبھی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا، مگر صرف 10 فیصد نے شکایت درج کروائی، کیونکہ انہیں انصاف ملنے کی امید نہیں تھی۔
یونیورسٹی آف مالاکنڈ میں حالیہ جنسی ہراسانی کا واقعہ 4 فروری 2025 کو پیش آیا، جب شعبہ اردو کی ایک طالبہ نے اپنے استاد، پروفیسر عبدالحسیب، پر جنسی ہراسانی اور دھمکانے کا الزام لگایا۔ طالبہ کے مطابق، پروفیسر نے اسے امتحانات میں اچھے نمبروں کے بدلے نازیبا تصاویر بھیجنے کا کہا اور کئی ماہ سے ہراسانی کی کوشش کر رہے تھے۔ طالبہ نے یونیورسٹی انتظامیہ کو متعدد بار شکایت کی، لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ بالآخر، 4 فروری کو مقدمہ درج کرایا گیا، جس کے بعد پروفیسر کو گرفتار کر لیا گیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے پروفیسر عبدالحسیب کو معطل کر دیا ہے اور ہراسمنٹ کمیٹی اس کے خلاف شکایات کا جائزہ لے رہی ہے۔ اگر الزامات درست ثابت ہوئے تو مزید کارروائی کی جائے گی۔ اس واقعے کے بعد، خیبر پختونخوا اسمبلی نے تحقیقات کے لیے خصوصی کمیٹی تشکیل دی ہے، جو 15 دن میں رپورٹ پیش کرے گی۔
پاکستان کی جامعات میں ہراسگی کے واقعات حالیہ برسوں میں نمایاں طور پر زیر بحث آئے ہیں۔ طلبہ، اساتذہ اور عملے کے ارکان کی شکایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں ہراسگی ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں پاکستان کی جامعات میں رپورٹ ہونے والے ہراسگی کے کیسز، حکام کے ردعمل اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ پاکستان میں ہراسگی کے حوالے سے کوئی جامع قومی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے، لیکن مختلف رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ جامعات میں ہراسگی کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ میڈیا ذرائع کے مطابق، سینکڑوں شکایات ہائر ایجوکیشن کمیشن اور یونیورسٹی ڈسپلنری کمیٹیوں میں درج کرائی گئی ہیں۔ لاہور، اسلام آباد اور کراچی کی مختلف جامعات میں کئی ہائی پروفائل کیسز سامنے آئے ہیں، جن میں طلبہ اور اساتذہ نے ہراسگی کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ 2021 میں ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطالعے میں یہ بات سامنے آئی کہ مختلف جامعات میں 150 سے زائد ہراسگی کے کیسز باضابطہ طور پر رپورٹ ہوئے۔ تاہم، معاشرتی دباؤ اور انتقامی کارروائی کے خوف کی وجہ سے بہت سے کیسز رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے۔ 2022 میں ہی 50 سے زائد کیسز بڑی جامعات میں رپورٹ ہوئے، جس کے بعد اس معاملے پر سخت پالیسیوں کی ضرورت پر زور دیا گیا۔