اسلام آباد: سپریم کورٹ کے دو ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے ججز کوڈ آف کنڈکٹ میں ترامیم اور سپریم جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کی شمولیت پر اپنے خط میںاعتراضات اٹھا دیئے۔
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کا خط 11 صفحات پر مشتمل ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل سمیت سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے ججز کے نام خط میں کہا کہ کونسل میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس سرفراز ڈوگر کی شمولیت نامناسب ہے، اُن سے متعلق اپیل ابھی زیر التوا ہے، چیف جسٹس پاکستان کی تعیناتی کے خلاف بھی مقدمہ زیر التواء ہے، دونوں ججز کو کوڈ آف کنڈکٹ مرتب کرنے والے اجلاس کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔
خط میں دونوں ججز نے لکھا کہ چیف جسٹس ہماری بات سے متفق تھے کہ آرٹیکل 209 کے تحت صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی ضابطہ اخلاق بنا سکتی ہے مگر اس بار کچھ الگ ہوا.
سپریم جوڈیشل کونسل میں شامل 3 چیف جسٹسز نے نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے رکن کے طور پر پہلے ضابطہ اخلاق کی منظوری دی پھر انہیں جوڈیشل کونسل میں بھی بیٹھ کر منظور کیا یہ آئینی خلاف ورزی ہے، ان ممبران کو سپریم جوڈیشل کونسل سے نکال کر ترمیم دیکھنی چاہیے تھی۔
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے خط میں مزید کہا ہےکہ مجوزہ ترمیم سے عدلیہ کی آزادی کو کمزور، شفافیت کو محدود اور اختیارات کو ایک شخص تک محدود کیا جا رہا ہے، مجوزہ ترامیم خطرناک اور بین الاقوامی اقدار کے بھی خلاف ہیں، یہ مخصوص ججز کی آواز دبانے کے لیے استعمال ہو سکتی ہیں۔
خط میں کہا گیا کہ ہم ایک آزمائشی دور سے گزر رہے ہیں، جمہوریت دباؤ کا شکار ہے اور آئینی اداروں کا امتحان ہے، ایسے ماحول میں بے خوف، مضبوط اور آزاد عدلیہ ہی عوام کی آخری امید ہے۔