سدرہ اشرف
ہمارے یہاں نوجوانوں کی شادی کا مقصد ہی آبادی میں اضافہ ہوتا ہے اور بغیر کسی منصوبہ بندی و حکمت عملی کے زیادہ سے زیادہ بچوں کی پیدائش ایک قابل فخر کارنامہ تصور ہوتا ہے.تاہم جب معاملہ بچوں کی خوراک، پرورش،تعلیم اور مستقبل کیلئے اقدامات کا آتا ہے،تو اس وقت بھی بیشتر والدین سنجیدہ نظر نہیں آتے.خصوصآ مائیں ہر سال بچہ پیدا کرنے کی وجہ سے نہ صرف خود آئرن اور نیوٹریشنز کی کمی کا شکار ہوتی ہیں بلکہ دنیا میں موجود اور دنیا میں آنے کیلئے وجود میں پرورش پانے والا بچہ بھی ماں کے پیٹ سے ہی مسائل اور کمزور قوت مدافعت کا شکار ہو کر زندگی بھر زندگی و موت کی جنگ میں مصروف رہتا ہے۔اسی طرح ریاست پاکستان بھی ان بچوں کو اس طرح توجہ و غذا فراہم نہیں کرپاتی.سال 2000ءسے پاکستان میں ماں و بچوں کی غذائیت پوری کرنے کے جو منصوبے سامنے لائے جارہے ہیں،وہ کامیابی حاصل نہیں کر پائے۔
پاکستان نیوٹریشن اینڈ ڈائیٹیٹک سوسائٹی کے ماہرین کے مطابق جسم میں آئرن اور دیگر مائیکرو نیوٹری اینٹس کی کمی کے باعث سندھ کے بیشتر دیہی علاقوں خصوصا خیر پور،نوشہرو فیروز،سکھر وغیرہ میں بچوں میں چھوٹے قد کا غیر معمولی رجحان دیکھنے میں آیا ہے،جو لڑکیوں کی نسبت لڑکوں میں زیادہ ہے ۔سال2019ء میں ہونے والے پاکستان قومی سلامتی نیوٹریشن سروے کے مطابق صوبائی سطح پر سب سے زیادہ لاغر بچے فاٹا میں ہیں،جن کا تناسب 48 فیصد ہے۔اس کے بعد بلوچستان 46 فیصد،گلگت بلتستان 46 فیصد،سندھ 45 فیصد،خیبر پختونخواہ 40 فیصد اور پنجاب 36 فیصد پر ہیں۔
مجموعی طور پر پاکستان میں 50 فیصد بچے غذائی کمی کا شکار ہیں،جس میں آئرن کی کمی سر فہرست ہے۔دیہی علاقوں میں غربت اور بے روزگاری کے باعث والدین بچوں کو صحت مند خوراک دینے سے قاصر ہیں،جس میں تعلیم کی کمی کا بھی دخل ہے۔زیادہ تر مائیں تعلیم یافتہ نہیں ہیں، جنہیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ کس عمر تک بچوں کو کون سی غذا دینا ضروری ہے۔
بچوں میں لاغر پن کا براہ راست تعلق ماں کی صحت سے ہے،”دوران حمل اگر ماں کے جسم میں آئرن کی کمی ہو تو بچہ نحیف و لاغر ہو گا اور ماں کے انیمیا کا شکار ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہوں گے۔‘‘اس حوالے سے ڈاکٹر جویریہ کے مطابق جنوبی پنجاب سمیت ملک بھر میں آئرن کی کمی سے ماؤں اور بچوں کی اموات کی شرح بڑھنے کا براہ راست تعلق غربت کے علاوہ قدامت پسندانہ سوچ سے بھی ہے۔دیہی علاقوں میں خواتین کو صحت کی بنیادی سہولیات دستیاب نہیں ہیں اور دوران ِ حمل گھر والے بھی ان کا مناسب خیال بھی نہیں رکھتے۔ پیدائش کے بعد 4 سے 6 ماہ تک ماں کا دودھ پینے سے بچے انیمیا سے بچے رہتے ہیں۔اس کے بعد انہیں ٹھوس غذا سے آئرن دیا جاتا ہے،جس میں مختلف سیریلز، گوشت یا پھل شامل ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر جویریہ کےمطابق اگر کسی وجہ سے ماں بچے کو اپنا دودھ نہیں پلا سکتی تو ایک سال تک آئرن ملا دودھ پلانا ضروری ہے،جو ڈاکٹر کی طرف سے تجویز کیا گیا ہو۔آئرن والے دودھ کے جو فارمولے بازار میں دستیاب ہیں ان میں سے بیشتر میں اتنا آئرن نہیں ہوتا،جس سے بچوں کی صحیح نشونما ہو سکے۔
اسی طرح آغا خان یونیورسٹی کی جانب سےمنعقد کرائے گئےقومی سلامتی نیوٹریشنل سروے کے مطابق پاکستان میں 48 فیصد مائیں پیدائش سے پانچ ماہ تک بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں،جبکہ 15 فیصد شوہر یا خاندان کی جانب سے دباؤ پر،17 فیصد جزوی اور 20 فیصد سرے سے بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتی ہیں۔بلوچستان میں یہ رجحان سب سے کم ہے،جہاں 69 صرف فیصد مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں۔یقینا اس کا تعلق خطے میں بدامنی،غربت اور صحت کی ناکافی سہولیات سے ہے.
موجودہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان 98 لاکھ بچوں کے ساتھ سٹنٹنگ ( ذہنی عدم نشو و نما) کی عالمی درجہ بندی میں تیسرے نمبر پر ہے،جبکہ غذائی قلت پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ 77 ہزار بچوں کی اموات کی ذمہ دار ہے،یہ شرح بچوں کی اموات کے 50 فیصد کے قریب ہے۔غذائی قلت پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ 77 ہزار بچوں کی اموات کی ذمہ دار ہے،یہ شرح بچوں کی اموات کے 50 فیصد کے قریب ہے۔اس سے زندہ بچ جانے والے بچے کمزور تعلیمی اور جسمانی ارتقاءکا شکار ہیں،جس کی وجہ سے کم تعلیم اور مزدوروں کی پیداواری صلاحیت متاثر ہوتی ہے،اور صحت عامہ کے نظام پر بڑا دباؤ پڑتا ہے۔
غذائی قلت کی وجہ سے پاکستان کو ہر سال 7.6 ارب ڈالر یا جی ڈی پی کا تین فیصد نقصان ہوتا ہے۔پاکستان میں روایتی طور پر غذائیت کو کم ہی ترجیح دی جاتی رہی ہے۔اسے سال1973ءمیں پلاننگ کمیشن میں ادارہ جاتی شکل دی گئی،تاہم اس کے باوجود دو دہائیوں تک اس معاملے میں بہت کم بہتری نظر آئی،جس کی بنیادی وجہ تکنیکی اور آپریشنل مہارت کی کمی تھی۔نیوٹریشن کا شعبہ تین دہائیوں بعد یعنی سال 2002ء میں اس وقت فعال ہوا،جب وزارت صحت نے اسے ذیلی شعبے کے طور پر متعارف کروایا۔ سال2002ءمیں ہی وزارت صحت میں ایک ’نیوٹریشن ونگ‘ کو شامل کیا گیا تھا،تاکہ پاکستان غذائیت میں کمی اور ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز (ایم ڈی جیز) کی جانب پیش رفت کو تیز کیا جا سکے۔
تاہم سال2010ء کے بعد وفاق نے صحت کے شعبوں کو خود مختاری کے تحت صوبوں کو سونپ دیا۔اس پیش رفت کے ایک سال بعد یعنی سال2011ءکے نیشنل نیوٹریشن سروے نے صوبوں میں غذائیت کی کمی کے حوالے سے غیر مساوی اشاریے ظاہر کیے۔سال2012ءمیں نیشنل ہیلتھ سروس ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن کی وزارت (ایم این ایچ ایس آر ایس) کی تشکیل نو کی گئی اور نیوٹریشن ونگ کو دوبارہ قائم کیا گیا۔تاہم غذائی قلت سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی صحت،تعلیم اور سماجی تحفظ کی وزارتوں سمیت ایک سے زیادہ شعبوں پر مشتمل ہونی چاہیے۔
جنوبی پنجاب کی سینئر صحافی ہیں اور مختلف صحافتی اداوں کے ساتھ منسلک رہنے کے بعد بطور فری لانس کام جاری رکھے ہوئے ہیں