سید خالد جاوید بخاری
یہ کہانی اُس لاہور کی ہے جو بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ایک زندہ، خوش رنگ اور تعلیم و تہذیب کا مرکز تھا.1932ء کے لگ بھگ گورنمنٹ کالج لاہور (آج کا جی سی یونیورسٹی) میں ایک نوجوان طالب علم ایک ایسی سواری لے آیا جو پورے شہر کے لیے حیرت کا باعث بن گئی — ایک موٹر بائیک!
یہ لاہور کی تاریخ کی پہلی موٹر سائیکل تھی، اور اسے لانے والا نوجوان تھا خوشونت سنگھ — وہی جو آگے چل کر مشہور ادیب اور صحافی بنے۔
اس زمانے میں لاہور کی سڑکوں پر تانگے، پالکیاں، گھوڑا گاڑیاں اور کبھی کبھار کوئی انگریز افسر کی موٹر کار دکھائی دیتی تھی۔
شہر میں فضا پرسکون، موسم دلکش، اور طلبا و شہری اپنی روزمرہ زندگی میں مگن تھے۔
ایسے میں اچانک گورنمنٹ کالج کے صحن میں ایک چمکتی دمکتی مشین نمودار ہوئی — لمبی، چمکدار اور بجلی کی سی رفتار رکھنے والی۔
کالج کے سب لڑکے حیران رہ گئے۔ کسی نے کہا، ’’یہ تو اڑن طشتری ہے!‘‘
دوسرے نے کہا، ’’یہ لاہور کا مستقبل ہے!‘‘
خوشونت سنگھ دہلی سے لاہور پڑھنے آئے تھے۔ وہ رئیس گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ان کے والد کی ملکیت دہلی کے بڑے حصے تک پھیلی ہوئی تھی، مگر ان کی اصل شہرت بنی — اے جے ایس (AJS) کمپنی کی موٹر بائیک سے۔یہ برطانیہ کی بنائی ہوئی ایک مشہور کمپنی تھی جسے "A. J. Stevens & Co” کہا جاتا تھا۔اس کمپنی کی بنیاد 1909ء میں رکھی گئی اور 1920ء کی دہائی تک اس کی بائیکس اپنی مضبوطی اور رفتار کے لیے مشہور ہو چکی تھیں۔خوشونت سنگھ کی موٹر بائیک لاہور کی زمین پر اترنے والی اپنی نوع کی پہلی مشین تھی۔
کالج کے پرنسپل اُس وقت ایک سخت مزاج برطانوی مؤرخ کرنل گیریٹ تھے۔
انہوں نے فوراً حکم دیا کہ ’’اس موٹر بائیک کو کالج میں رکھنے کی اجازت نامہ درکار ہے۔‘‘
یوں خوشونت سنگھ کو کالج میں اپنی سواری کھڑی کرنے کے لیے خصوصی اجازت لینی پڑی۔
طلبا روزانہ اس بائیک کے گرد جمع ہو جاتے، جیسے کوئی نایاب خزانہ ہو۔
ہر کوئی چاہتا تھا کہ ایک بار اسے چھو لے، یا کم از کم اس پر بیٹھنے کی تصویر بنوا لے۔
اس زمانے کی موٹر سائیکل آج کی بائیکوں سے بہت مختلف تھی،لمبائی تقریباً تین میٹر کے قریب تھی۔پہیے بہت بڑے اور نشست چوڑی تھی۔
دو افراد آسانی سے سفر کر سکتے تھے، دونوں جانب سامان رکھنے کے لیے دھاتی جالیاں موجود تھیں۔ جس کی آواز بھاری مگر دلکش تھی، جیسے کوئی طاقتور جانور گرج رہا ہو۔خوشونت سنگھ نے خود بتایا کہ انہوں نے دہلی سے لاہور کا تقریباً تین سو کلومیٹر کا سفر اسی بائیک پر کیا۔یہ 1932ء کی بات ہے — اُس زمانے میں یہ ایک ناقابلِ یقین کارنامہ سمجھا جاتا تھا۔
1932ء میں جب خوشونت سنگھ کی بائیک لاہور پہنچی تو شہر بھر میں اس کی چرچا ہو گئی۔کہا جاتا ہے کہ 1940ء تک لاہور میں موٹر بائیکوں کی تعداد آٹھ سے زیادہ نہیں تھی۔اس دور میں عام لوگ اس سواری کو ’’بادشاہی موٹر‘‘ کہا کرتے تھے۔تانگہ بان اور یکہ سوار اسے دیکھ کر دنگ رہ جاتے تھے — جیسے آسمان سے کوئی چیز زمین پر اتر آئی ہو۔
یہ واقعہ صرف ایک بائیک کی آمد نہیں تھی، بلکہ لاہور میں جدید ٹیکنالوجی کے آغاز کی علامت تھی۔اس نے شہری زندگی میں رفتار، سہولت اور خود مختاری کا تصور متعارف کرایا۔گورنمنٹ کالج جیسے ادارے میں اس نے نوجوانوں کے لیے ایک نئی خواہش پیدا کی — ’’ہم بھی زمانے کے ساتھ چلیں!‘‘اس بائیک نے انگریز دور کے تعلیمی اداروں میں نئے طرزِ زندگی کا آغاز کیا، جہاں علم کے ساتھ مشینوں اور رفتار کی محبت بھی شامل ہو گئی۔
تازہ تحقیقی مطالعے (National Motorcycle Museum, WebBikeWorld, Wikipedia وغیرہ) کے مطابق؛AJS کمپنی نے 1930ء کی دہائی میں دنیا بھر میں سب سے مضبوط موٹر بائیکس تیار کیں۔ان میں سے چند گنی چنی مشینیں ہندوستان لائی گئیں، زیادہ تر کلکتہ یا بمبئی کی بندرگاہوں سے۔ممکن ہے خوشونت سنگھ کی بائیک بھی انہی راستوں سے لاہور پہنچی ہو۔یہ وہ زمانہ تھا جب دہلی میں موٹر بائیکس کی کل تعداد صرف پانچ تھی — اس لیے لاہور میں یہ واقعی ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔
خوشونت سنگھ کی موٹر بائیک نے لاہور میں صرف شور نہیں مچایا — بلکہ تاریخ کا ایک نیا باب رقم کیا۔یہ واقعہ بتاتا ہے کہ لاہور ہمیشہ سے تبدیلی، جدت اور جستجو کا شہر رہا ہے۔آج جب ہر گلی میں بائیکس کی قطار نظر آتی ہے، تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ سفر ایک ایسے نوجوان سے شروع ہوا تھا جس نے ہمت کی، نئی چیز اپنائی اور لاہور کو جدید دور کے دروازے پر لا کھڑا کیا۔
حوالہ جات:
1. A. J. Stevens & Co. Ltd (AJS) تاریخ، Wikipedia: https://en.wikipedia.org/wiki/AJS
2. The Story of AJS Motorcycles, National Motorcycle Museum, UK
3. History of AJS Motorcycles, WebBikeWorld
4. AJS History, The History Website (UK)
سینیئر قانون دان ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔



