نعیم احمد
فیصل آباد کے ریل بازار میں کپڑے کے کاروبار سے وابستہ محمد ارشد اپنی دکان پر موجود تھے کہ انہیں ایک نامعلوم نمبر سے کال موصول ہوئی۔
کال کرنے والے نے خود کو ان کے بچوں کے سکول میں ملازم ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ والدین کی رہنمائی کے لئے ایک نیا واٹس ایپ گروپ بنایا گیا ہے اور وہ اس میں شامل ہونے کے لئے موبائل پر بھیجے گئے پیغام میں موجود لنک کو کلک کریں۔”اس لنک کو کلک کرنے پر مجھے کہا گیا کہ میں اپنا واٹس ایپ اکاونٹ دوبارہ لاگ ان کروں اور پھر اس کے چند منٹ بعد میرا واٹس ایپ ہیک ہو گیا اور کوئی میرے دوستوں و رشتہ داروں کو میرے واٹس ایپ سے فوری مالی مدد کے پیغامات بھیجنے لگ گیا۔”وہ بتاتے ہیں کہ کاروباری معاملات نمٹانے کے لئے وہ اکثر دوستوں اور قریبی عزیزوں سے ایک، دو دن کے ٹائم پر تھوڑی بہت رقم ادھار لیتے رہتے ہیں، اس لئے ان کے چند دوستوں نے روٹین کا معاملہ سمجھ کر فراڈ میں ملوث افراد کو ڈیڑھ لاکھ روپے کے لگ بھگ رقم بھجوا دی۔”ایک دوست نے جب میرے موبائل نمبر پر کال کر کے پیسے موصول ہونے کی تصدیق کرنا چاہی تو مجھے اس فراڈ کا علم ہوا کہ کوئی میرا واٹس ایپ ہیک کرکے میری شناخت استعمال کرتے ہوئے میرے دوستوں سے پیسے لے رہا ہے۔”
ضیاء ٹاون کی رہائشی بیوٹیشن عالیہ ارشاد بھی اسی نوعیت کے ایک فراڈ کا شکار ہو کر 25 ہزار روپے کی رقم سے محروم ہو چکی ہیں۔وہ بتاتی ہیں کہ ان کے موبائل فون پر ایک نامعلوم نمبر سے کال موصول ہوئی اور کال کرنے والے نے ان سے کہا کہ "آپ خوش قسمت ہیں کیونکہ آپ نے جاز کیش لکی ڈرا جیت لیا ہے اور اب آپ کے جاز کیش اکاونٹ میں موجود رقم دگنی ہو جائے گی۔” کال کرنے والے نے انہیں کہا کہ انعامی رقم کی منتقلی سے پہلے انہیں اپنے اکاؤنٹ کی تصدیق کے لئے فون پر موصول ہونے والا چار ہندسوں کا کوڈ (OTP) بتانا ہو گا۔عالیہ بتاتی ہیں کہ "میں نے انعامی رقم ملنے کی خوشی میں بغیر سوچے سمجھے موبائل پر موصول ہونے والا چار ہندسوں کا کوڈ بتا دیا جس پر مجھے کہا گیا کہ ایک گھنٹے تک رقم آپ کے اکاونٹ میں آ جائے گی۔”انہوں نے بتایا کہ وہ اس انتظار میں تھیں کہ ان کی رقم دو گنا ہو جائے گی لیکن چند منٹ بعد انہیں موبائل پر پیغام موصول ہوا کہ ان کے اکاونٹ میں موجود 25 ہزار روپے کی رقم نکلوا لی گئی ہے۔ "میں بہت پریشان تھی کہ اب گھر والوں کو اس بارے میں کیسے بتاوں گی، میں نے جاز کیش کے دفتر جا کر انہیں تفصیلات بتائیں تو انہوں نے کہا کہ یہ فراڈ ہے کمپنی نے کسی ایسی سکیم کا اعلان نہیں کیا ہے۔”
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ 24-2023 کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران ڈیجیٹل ادائیگیوں کی تعداد میں 40 فیصد اور مالیاتی حجم میں 62 فیصد اضافہ ہوا ہے۔رپورٹ کے مطابق اس عرصے کے دوران انٹرنیٹ اور موبائل بینکنگ کے ذریعے 69.8 کھرب روپے کی کل 1,345.9 ملین ٹرانزیکشنز کی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں اے ٹی ایم مشینوں کے ذریعے 15.0 کھرب روپے کی 931.6 ملین ٹرانزیکشنز ہوئیں جبکہ ڈیجیٹل ای-والٹس کے ذریعے ادائیگیوں کا حصہ تین فیصد رہا۔ اس رپورٹ کے مطابق پوائنٹ آف سیلز اور ای کامرس پلیٹ فارمز پر کارڈ کے ذریعے ادائیگیوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ مالی سال میں پی او ایس ٹرانزیکشنز اور ای کامرس ٹرانزیکشنز کی تعداد 36 فیصد اور 26 فیصد بڑھ کر بالترتیب 271.4 ملین اور 39.9 ملین تک پہنچ چکی ہے جبکہ مالیاتی حجم کے لحاظ سے پی او ایس ٹرانزیکشنز 1,502.4 ارب روپے (41 فیصد نمو) اور ای کامرس ٹرانزیکشنز 194.3 ارب روپے (37 فیصد نمو) رہی ہے۔علاوہ ازیں جون 2023 میں انٹرنیٹ، موبائل بینکنگ اور ای والٹ ہولڈرز کی تعداد بالترتیب 16.1 ملین، 9.6 ملین اور 2 ملین تھی جو کہ جون 2024 میں بڑھ کر بالترتیب 18.7 ملین، 12.0 ملین اور 3.7 ملین ہو چکی ہے۔
تاہم پاکستان میں مالیاتی لین دین اور رقوم کی ترسیل کے لئے ڈیجیٹل نظام کے استعمال میں اضافے کے ساتھ ساتھ فیک کالز اور واٹس ایپ ہیکنگ کے ذریعے مالیاتی فراڈ کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان میں 2013 سے صارفین کے ڈیجیٹل حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی نان گورنمنٹ آرگنائزیشن ڈیجیٹل رائٹس فاونڈیشن کے مطابق رواں سال کے پہلے آٹھ ماہ میں اسے فیک کالز اور پیغامات کے ذریعے دھوکہ دہی سے متعلق 233 شکایات موصول ہوئی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر شکایات شہریوں کے ڈیجیٹل والٹس تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ہیلپ لائن کا نمائندہ بن کر رابطہ کرنے، فیک کالز کے ذریعے متاثرہ شخص کے خاندان کے کسی رکن کی رہائی کے لئے بڑی رقم کا مطالبہ کرنے اور فشنگ لنکس کے ذریعے متاثرہ شہری کے سوشل میڈیا اکاونٹ ہیک کرکے ان کے قریبی افراد سے مالی مدد مانگنے کے واقعات سے متعلق ہیں۔
پاکستان ٹیلی کمیونکیشن کی سالانہ رپورٹ 2024 کے مطابق موبائل سروس اور آن لائن پلیٹ فارمز پر جعلی پیغامات اور کالز کے ذریعے شہریوں سے فراڈ کی کوششوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔اس طرح کے فراڈ میں ملوث عناصر کے خلاف کاروائیوں کے حوالے سے پی ٹی اے نے گزشتہ ایک سال کے دوران 5294 موبائل نمبر اور 4507 آئی ایم ای آئی بلاک کئے ہیں جبکہ 113 شناختی کارڈ نمبرز کو بلیک لسٹ کیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں 19 ہزار 730 موبائل نمبرز کے مالکان کو وارننگ جاری کی گئی ہے جبکہ گم ہو جانے والے، چوری شدہ یا چھینے گئے موبائل فونز کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے بھی شہریوں کی شکایات پر 27 ہزار 351 موبائل فون بلاک کئے گئے ہیں۔
جعلی فون کالز، موبائل پیغامات اور ہیک شدہ واٹس ایپ اکاؤنٹس کے ذریعے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے جعلسازوں کی طرف سے خاندان کے افراد، دوستوں یا اہلکاروں کے روپ میں جعلسازی کے بڑھتے ہوئے خطرے کو روکنے کے لیے ٹیلی کام اور فن ٹیک کمپنیوں نے بھی اپنی کوششوں کو تیز کیا ہے۔اس سلسلے میں پاکستان کے سب سے بڑے موبائل والٹ فراہم کنندہ ادارے جاز کیش نے اپنے پلیٹ فارمز پر سیکیورٹی اپ گریڈ کے لئے اقدامات کئے ہیں۔ علاوہ ازیں موبی لنک مائیکرو فنانس بینک نے ایک "کسٹمر آگاہی” گائیڈ بھی شائع کی ہے جس میں جعلسازی سے بچنے کے طریقے بتائے گئے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ صارفین کی آگاہی کے لئے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا، ایس ایم ایس اور سوشل میڈیا اکاونٹس کے ذریعے بھی الرٹس جاری کئے جاتے ہیں۔تاہم ان اقدامات کے باوجود کم ڈیجیٹل خواندگی، قانونی کمزوریوں اور فراڈ کا پتہ لگانے کے لئے ناکافی تکنیکی سہولیات کی وجہ سے ایسے واقعات کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں سائبر سکیورٹی کے نگران محمد عاصم بتاتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات میں مجرم اپنے شکار کو پھنسانے کے لیے سوشل انجینئرنگ کی تکنیک استعمال کرتے ہیں۔”ناخواندہ، بزرگ افراد اور ٹیکنالوجی سے کم واقفیت رکھنے والے شہری اس طرح کے فراڈ کرنے والوں کے لئے آسان شکار ثابت ہوتے ہیں۔” انہوں نے بتایا کہ جرائم پیشہ افراد اب ماسکنگ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ایسے نمبر استعمال کرتے ہیں جو متعلقہ اداروں کی ہیلپ لائن سے ملتے جلتے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ عام طور پر دھوکا کھا جاتے ہیں۔
"مئی 2025ء میں نیشنل سائبر ایمرجنسی رسپانس ٹیم نے ایک ایڈوائزری وارننگ جاری کی تھی کہ پاکستان میں 180 ملین سے زیادہ انٹرنیٹ صارفین کے لاگ ان کی تفصیلات اور پاس ورڈز گلوبل ڈیٹا بریچ کے دوران چوری ہو گئے ہیں۔”انہوں نے بتایا کہ اس صورتحال میں لوگوں کو چاہیے کہ اپنی تمام سوشل میڈیا ایپس کے لئے ٹو فیکٹر ویریفکیشن آن کریں اور واٹس ایپ کی لنکڈ ڈیوائسز کو چیک کرتے رہیں کہ ان کے اکاونٹ تک کس اور کی رسائی تو نہیں ہے۔ "لوگوں کو نامعلوم کال کرنے والوں اور فوری رقم بھیجنے کے پیغامات یا کوڈ بتانے کی ہدایات پر مبنی پیغامات سے ہوشیار رہنا چاہیے اور سائبر سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے اپنے موبائل فون کی تمام ایپس کو اپ ڈیٹ رکھنا چاہیے”.ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ڈیٹا پروٹیکشن قانون کو نافذ کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کی نجی معلومات کو محفوظ بنایا جا سکے اور لوگ ڈیٹا لیک ہونے کی وجہ سے مالیاتی فراڈ، ہراسمنٹ یا بلیک میلنگ کا شکار نہیں ہوں۔