Untitled 2025 10 13T065046.661

پانی کا قہر یا انسان کی کوتاہی؟ — 1973 سے 2025 تک تباہی کی کہانی

انیلہ اشرف

بیالیس برس گزر گئے مگر وہ چیخیں، وہ صدائیں، وہ پانی کے شور میں ڈوبی دعائیں آج بھی بزرگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔ سال 1973 کا سیلاب گویا تاریخ بن چکا تھا، مگر 18 اگست 2025 کو جنوبی پنجاب نے ایک بار پھر وہی منظر دیکھا — وہی ڈوبتی بستیاں، وہی بے بس انسان، وہی خوف زدہ آنکھیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس بار تباہی کہیں زیادہ تھی، بے بسی کہیں گہری۔

چناب، ستلج اور بیاس کے بپھرے دریا جب ایک بار پھر اپنے کناروں سے باہر آئے تو علی پور، جلال پور پیر والا، عظمت پور، پرہلاد پور سمیت درجنوں بستیاں پانی میں ڈوب گئیں۔ دو ماہ گزرنے کے باوجود ہزاروں خاندان اب تک محفوظ واپسی کی راہ نہیں دیکھ پائے۔ کئی علاقے ایسے ہیں جہاں پانی اترنے کے بعد لوگ واپس آئے، مگر صرف چند دن بعد دوبارہ ریلا آیا اور وہ ایک بار پھر سب کچھ چھوڑ کر نکل گئے۔
Untitled 2025 10 13T065240.467
اگرچہ جنوبی پنجاب کے عوام کو 2010،2013-14 اور 2022میں بھی سیلابی صورتحال کا سامنا رہا ہے، تاہم عینی شاہدین کے مطابق اس دوران بستیوں کی بستیاں ملیا میٹ نہیں ہوئی تھیں اور نہ علاقے 100 فیصد تباہی کا شکار ہوئے تھے۔سال 2025 کے سیلاب کو مہمان بنے 18 اکتوبر کو دوماہ مکمل ہوجائیں گے۔چناب،ستلج اور بیاس کے پانی نے اس کے باوجود سیلاب زدگان کی گھروں کو واپسی یقینی نہیں ہونے دی بلکہ بعض متاثرہ علاقے جیسے عظمت پور علی پور اور پرہلاد پور جلال پور پیر والا سمیت دیگر چھوٹے بڑے علاقے دوسری مرتبہ سیلاب کے خوف کا شکار ہیں کیونکہ ستلج اور بیاس باربار بپھر رہے ہیں۔جس سے خوف و ہراس کے مارے سیلاب متاثرین جو گھروں کو واپس بھی چلے گئے تھے ایک مرتبہ پھر بچا کچھا اثاثہ سمیٹ کو صرف دو سے تین روز بعد علاقے چھوڑ آئے ہیں۔مقامی متاثرین کے مطابق، “ایم-5 موٹروے اور بااثر افراد کی زمینیں بچانے کی خاطر پانی کا رخ بستیوں کی طرف موڑ دیا گیا۔” کسی کا گھر بہہ گیا، کسی کا کھیت، کسی کا خواب۔ غریب عوام کی برسوں کی کمائی چند گھنٹوں میں مٹی ہو گئی۔

"ایسا سیلاب پہلے کبھی نہیں دیکھا” — بزرگوں کی آنکھوں سے سیلاب کی کہانیاں سنتے ان کے ساتھ سننے والوں کے بھی آنسو جاری رہےاور تسلی کے چند الفاظ بھی سسنے والوں کے منہ سے نکل سکے.

Untitled 2025 10 13T065725.873کنیز مائی، جو جلالپور پیروالہ کی بزرگ سیلاب زدہ خاتون ہیں، کہتی ہیں:”ہاں، پہلے بھی سیلاب دیکھے ہیں، پر ایسا کبھی نہیں دیکھا۔ ماضی میں جب پانی آتا تھا، ہم گھروں کے اندر رہ جاتے تھے، مگر اب تو دو مہینے ہونے کو ہیں بند پر بیٹھے ہیں۔ پانی ایسا تیزی سے چڑھا کہ کسی کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا”۔

Untitled 2025 10 13T065758.860غلام فرید، بیٹ کیچ جلال پور پیر والا کے 70 سالہ بزرگ، 1973 کا سیلاب یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں:”تب بھی تباہی تھی، مگر وہ سیلاب گزر گیا۔ یہ سیلاب تو دو ماہ سے جیسے رکا ہی نہیں۔ لوگ اجڑتے ہیں، پھر اپنے ہاتھوں سے بحالی شروع کرتے ہیں، اور اگلا ریلا آ کر ان کی امیدیں پھر بہا لے جاتا ہے”۔

Untitled 2025 10 13T065902.64580 سالہ گل محمد، جنہوں نے اپنی زندگی کے تمام موسم دیکھے، آنکھوں میں نمی لیے بولے:”میں نے اتنا پانی، اتنی تباہی کبھی نہیں دیکھی۔ یہ سیلاب نہیں، تباہی کا سونامی ہے۔ لاکھوں گھر متاثر ہوئے، لوگ آسمان کے نیچے پڑے ہیں، نہ خوراک، نہ علاج، نہ پناہ”۔

Untitled 2025 10 13T065943.025اماں بی بی، جن کے چہرے پر وقت کی تھکن اور دکھوں کی لکیریں ہیں، کہتی ہیں:”پچھلے سیلاب کے بعد ہم نے جو کچھ بچایا تھا، اس بار وہ بھی بہہ گیا۔ حفاظتی بندوں نے پانی کو روکنے کے بجائے بستیوں کی طرف موڑ دیا۔ اب ہمارے پاس نہ مویشی بچے، نہ گھر۔ بچوں کے ساتھ کھلے میدان میں ہیں — نہ پینے کا پانی ہے، نہ کھانے کا، نہ کوئی آسرا”۔

محکمہ موسمیات کے مطابق، 2025 کا سیلاب 1973 کے مقابلے میں زیادہ شدید، طویل اور وسیع تھا۔بارشوں کے غیر معمولی سلسلے، دریاؤں کے بپھرنے، پشتوں کے ٹوٹنے اور ناقص منصوبہ بندی نے مل کر تباہی کی وہ تصویر بنائی جس کے رنگ صرف مٹی، آنسو اور بے بسی تھے۔

سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں دو ماہ بعد بھی بحالی کا عمل سست روی کا شکار ہے۔ عارضی خیمہ بستیاں مایوسی کی تصویر پیش کر رہی ہیں۔سکول ڈوب گئے، زمین بنجر ہو گئی، اور خواب — بس خواب رہ گئے۔

آج بزرگوں کی زبان پر ایک ہی سوال ہے:”کیا یہ 1973 سے بڑا سیلاب تھا یا ہماری نااہلی کا انجام”؟.عوام کہتی ہے، "دریا ناراض نہیں، ہم نے خود اپنی زمینوں کو رُلایا ہے”۔سیلاب کے بعد اگر کچھ باقی ہے تو وہ صرف انسانی حوصلہ ہے، جو ہر آفت کے بعد دوبارہ کھڑا ہو جاتا ہے۔سیلاب اب محض قدرتی آفت نہیں رہا، یہ انتظامی کمزوریوں اور منصوبہ بندی کی ناکامی کا عکس بن چکا ہے۔ اگر ہم نے سبق نہ سیکھا تو تاریخ پھر اپنے آنسو دہراتی رہے گی۔

Untitled 2025 10 08T204750.958
انیلہ اشرف سینیئر صحافی، میڈیا ٹرینر ہونے کے ساتھ لب آزاد کی بانی ایڈیٹر ہیں، اور مختلف موضوعات پر لکھتی رہتی ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں