Untitled 2025 10 12T015050.317

پاک افغان بارڈر پر کشیدگی؛ وجوہات، اثرات اور علاقائی تناظر

اکرام بکائنوی

پاک افغان تعلقات کا تاریخی تناظر ہمیشہ سے پیچیدہ رہا ہے۔ دونوں ممالک مذہبی، لسانی اور ثقافتی اعتبار سے جڑے ہونے کے باوجود سرحدی اختلافات اور سیاسی اعتماد کے بحران کا شکار رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں پاک افغان بارڈر پر ہونے والی شدید جھڑپوں نے ایک بار پھر خطے میں کشیدگی کی فضا کو گہرا کردیا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق سرحد کے مختلف مقامات خصوصاً کنڑ، ہلمند اور ننغارہار کے قریب فائرنگ اور گولہ باری کے تبادلے ہوئے جن میں دونوں جانب جانی نقصان کی اطلاعات ہیں۔ پاکستان نے مؤقف اختیار کیا کہ افغان فورسز نے بلا اشتعال فائرنگ کی، جب کہ طالبان حکومت نے کہا کہ یہ کارروائیاں پاکستانی فضائی حملوں کے جواب میں کی گئیں۔ یہ صورتحال نہ صرف دونوں ممالک کے لیے خطرناک ہے بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے بھی تشویش کا باعث بن چکی ہے۔
Untitled 2025 10 12T015738.841
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تقریباً 2,600 کلومیٹر طویل سرحد ہے جسے ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے۔ یہ لائن برطانوی دور حکومت میں 1893ء میں طے کی گئی تھی، مگر افغان حکومت نے کبھی اس سرحد کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔ اسی وجہ سے سرحدی علاقے مسلسل تنازعات کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان نے 2017ء سے 2021ء کے درمیان اس سرحد پر باڑ لگانے کا عمل مکمل کیا تاکہ غیر قانونی آمدورفت، اسمگلنگ اور دہشت گردوں کی دراندازی کو روکا جا سکے۔ طالبان حکومت نے اس باڑ پر متعدد بار اعتراضات کیے اور کئی مقامات پر اسے اکھاڑنے کی کوشش بھی کی۔ اس طرح درند لائن ایک سیاسی نہیں بلکہ سلامتی کا مسئلہ بن چکی ہے۔

موجودہ کشیدگی کی بنیاد ایک طویل سلسلے کا تسلسل ہے۔ طالبان حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان نے توقع کی تھی کہ افغان سرزمین پاکستان مخالف گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہیں بنے گی۔ لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس سامنے آئے۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر مسلح گروہ افغانستان کے سرحدی علاقوں میں منظم ہو گئے، جنہوں نے پاکستانی فورسز اور شہری علاقوں پر حملے تیز کر دیے۔ پاکستان نے بارہا کابل حکومت کو خبردار کیا کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف عملی اقدامات کرے، مگر طالبان حکومت نے ہمیشہ کہا کہ وہ کسی گروہ کو پاکستان کے خلاف کارروائی کی اجازت نہیں دے رہی۔ اس تضاد نے اعتماد کے بحران کو گہرا کیا اور آخرکار کشیدگی عملی تصادم میں تبدیل ہو گئی۔

تازہ جھڑپوں میں پاکستانی فوج نے افغان فورسز کی کئی چوکیوں کو نشانہ بنایا اور بعض سرحدی مقامات پر کنٹرول حاصل کیا۔ ذرائع کے مطابق ان کارروائیوں میں پاکستان نے ان ٹھکانوں کو تباہ کیا جہاں سے ٹی ٹی پی کے حملوں کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی۔ دوسری جانب طالبان حکومت نے کہا کہ ان حملوں میں افغان شہری متاثر ہوئے، جس کے جواب میں افغان فورسز نے پاکستانی چوکیوں پر جوابی فائرنگ کی۔ صورتحال اس قدر سنگین ہو گئی کہ بعض گزرگاہوں کو عارضی طور پر بند کرنا پڑا اور تجارتی قافلے رک گئے۔ چمن اور طورخم جیسے اہم تجارتی راستے کئی دن معطل رہے جس سے دونوں ممالک کی معیشت کو نقصان پہنچا۔
Untitled 2025 10 12T015848.998
دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی یہ کشیدگی صرف فوجی محاذ تک محدود نہیں بلکہ سفارتی سطح پر بھی تناؤ بڑھ رہا ہے۔ پاکستان نے عالمی برادری کو صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں موجود شدت پسند گروہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔ افغانستان کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ پاکستان سرحدی حدود سے تجاوز کر رہا ہے اور افغان خودمختاری کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اس باہمی الزام تراشی نے خطے میں بے اعتمادی کو مزید گہرا کر دیا۔

ایران، چین، قطر اور سعودی عرب جیسے ممالک نے دونوں ممالک سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ پاک افغان تعاون کے بغیر خطے میں استحکام ممکن نہیں۔ افغانستان کی موجودہ حکومت کو سفارتی تنہائی کا سامنا ہے، اور پاکستان اس کے لیے واحد ہمسایہ تھا جو ابتدا میں طالبان حکومت سے رابطہ رکھے ہوئے تھا۔ مگر حالیہ جھڑپوں کے بعد وہ اعتماد بھی شدید متاثر ہوا ہے۔ اگر یہ کشیدگی مزید بڑھی تو نہ صرف تجارت بلکہ انسانی نقل و حرکت، سرحدی دیہاتوں کی سلامتی اور پناہ گزینوں کی واپسی جیسے اہم معاملات بھی تعطل کا شکار ہو جائیں گے۔

پاک افغان بارڈر پر جاری کشیدگی کے معاشی اثرات بھی کم نہیں۔ سرحدی تجارت، جو دونوں ممالک کی معیشت کا اہم حصہ ہے، بند ہونے سے لاکھوں افراد کے روزگار پر اثر پڑا ہے۔ پاکستان سے پھل، سبزیاں، سیمنٹ، دوائیاں اور دیگر اشیاء افغانستان کو بھیجی جاتی ہیں جب کہ افغانستان سے خشک میوہ جات اور معدنیات پاکستان آتی ہیں۔ سرحد بند ہونے سے یہ کاروبار ٹھپ ہو گیا۔ اس کے علاوہ طورخم اور چمن جیسے مقامات پر سینکڑوں ٹرک روزانہ سرحد پار کرتے ہیں جنہیں روک دیا گیا ہے۔ تجارتی سرگرمیوں کی معطلی دونوں جانب کے عوام کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔
Untitled 2025 10 12T020054.314
سکیورٹی کے ماہرین کے مطابق، موجودہ صورتحال کا سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ اگر طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی یا دیگر گروہوں پر قابو نہ پایا تو پاکستان کو مزید سخت اقدامات کرنے پڑ سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ تصادم محدود سرحدی جھڑپ سے بڑھ کر طویل مزاحمتی تنازعہ بن سکتا ہے۔ افغانستان کے اندرونی حالات پہلے ہی غیر مستحکم ہیں، جہاں معاشی بحران، انسانی حقوق کے مسائل اور عالمی تنہائی موجود ہے۔ اگر بارڈر تنازعہ شدت اختیار کرتا ہے تو افغان معیشت مزید کمزور ہو سکتی ہے اور پاکستان کے لیے بھی سکیورٹی اخراجات بڑھ جائیں گے۔

یہ صورتحال بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے۔ چین، جس کا سی پیک منصوبہ پاکستان سے گزرتا ہے، چاہتا ہے کہ علاقائی استحکام قائم رہے تاکہ سرمایہ کاری محفوظ رہے۔ ایران اور وسطی ایشیائی ریاستیں بھی نہیں چاہتیں کہ افغان سرحد پر کوئی نیا محاذ کھلے کیونکہ اس کے اثرات ان کے اندرونی امن پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک اس کشیدگی کو طالبان حکومت کے لیے ایک مزید دباؤ کے طور پر دیکھ رہے ہیں تاکہ وہ دہشت گرد گروہوں سے فاصلہ اختیار کرے۔

تحقیقی طور پر اگر دیکھا جائے تو پاک افغان تعلقات کی بنیاد ہمیشہ سکیورٹی کے بجائے اعتماد کے بحران پر رہی ہے۔ 1947ء کے بعد سے افغانستان وہ پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کی اقوامِ متحدہ میں شمولیت کی مخالفت کی تھی۔ درند لائن کو تسلیم نہ کرنا، قبائلی علاقوں پر اثر و رسوخ کی کوششیں، اور بھارت کے ساتھ افغان روابط جیسے مسائل ہمیشہ دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کا سبب رہے۔ طالبان حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد کچھ عرصہ امید پیدا ہوئی کہ تعلقات بہتر ہوں گے، مگر ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں اور سرحدی تنازعات نے اس امکان کو ماند کر دیا۔
Untitled 2025 10 12T020257.574
مستقبل کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس تنازعے کا پائیدار حل صرف سفارتی مذاکرات اور اعتماد سازی کے اقدامات میں ہے۔ دونوں ممالک کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ایک دوسرے کے بغیر علاقائی استحکام ممکن نہیں۔ پاکستان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں براہ راست مداخلت سے گریز کرے اور طالبان حکومت کے ساتھ ایسے میکنزم پر کام کرے جو دہشت گرد گروہوں کی سرکوبی کو یقینی بنائے۔ اسی طرح طالبان حکومت کو بھی سمجھنا ہوگا کہ اگر اس کی سرزمین سے پاکستان یا کسی ہمسایہ ملک کے خلاف کارروائیاں ہوں گی تو اسے بین الاقوامی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

آخر میں یہ کہنا درست ہوگا کہ پاک افغان بارڈر پر کشیدگی وقتی نہیں بلکہ ایک تاریخی و ساختی مسئلہ ہے۔ جب تک دونوں ممالک کے درمیان سرحدی حدود، دہشت گردی اور باہمی اعتماد کے مسائل حل نہیں ہوتے، تب تک یہ سرحدی تناؤ بار بار ابھرتا رہے گا۔ خطے کی سلامتی، تجارت، اور عوامی بہبود اسی وقت ممکن ہے جب دونوں فریق زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے باہمی مکالمہ، تعاون اور امن کی راہ اپنائیں۔ اس کشیدگی سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگانہ پاکستان کو، نہ افغانستان کو، بلکہ نقصان صرف ان عوام کو ہوگا جو سرحد کے دونوں اطراف غربت، بے روزگاری اور خوف کی فضا میں جی رہے ہیں۔ یہی وقت ہے کہ دونوں ممالک جنگ کے بجائے امن کو ترجیح دیں تاکہ آنے والی نسلیں بارود کی بو نہیں بلکہ دوستی، امن اور ترقی کی فضا میں سانس لے سکیں۔
Untitled 2025 08 20T195043.517

اپنا تبصرہ لکھیں