صفورا امجد
پاکستان میں خواتین کی صحت کے حوالے سے سب سے زیادہ عام اور خطرناک مسئلہ چھاتی کا سرطان ہے ۔ تقریباً ہر آٹھ میں سے ایک عورت اس مرض کا شکار ہے۔ مختلف اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں ہر سال تقریبا 90 ہزار خواتین کو چھاتی کے سرطان کی تشخیص ہوتی ہے جن میں سے چالیس ہزار کے قریب خواتین اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں ۔ اس طرح کے اعداد و شمار یہ واضح کرتے ہیں کہ خواتین میں اس بیماری کے حوالے سے آگاہی کی شدید قلت پائی جاتی ہے۔
پاکستان میں بریسٹ کینسر سے اموات دیگر ممالک سے زیادہ ہیں کیونکہ زیادہ تر مریضوں میں بیماری کی تشخیص آخری مراحل میں ہوتی ہے۔بروقت تشخیص کی کمی اور علاج معالجے کے مہنگے اخراجات بھی اموات میں اضافے کی وجہ بنتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق، پاکستان میں بریسٹ
کینسر کے 70 فیصد کیسز تیسرے یا چوتھے مرحلے میں رپورٹ ہوتے ہیں۔
تعلیم یا آگاہی کا نہ ہونا براہ راست صحت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں خواتین کو بریسٹ کینسر کے حوالے سے بنیادی علامات کے بارے میں علم ہی نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کیسز کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔ اگر اس مرض کی تشخیص ہو بھی جائے تو خواتین شرم کی وجہ سے اس کے علاج سے گھبراتی ہیں۔خواتین کو نہ تو خود معائنہ کے بارے میں علم ہے نہ ہی باقاعدہ میمو گرام کروانے کے بارے میں جانتی ہیں۔
حکومت اور تعلیمی اداروں کو ایسے اقدامات کرنے چاہیں جن سے تمام خواتین کو بریسٹ کینسر کے حوالے سے آگاہی مل سکے۔ دیہی علاقوں میں میڈیکل کیمپس لگائے جائیں تاکہ خواتین آسانی سے معائنہ کروا سکیں۔ ٹی وی، ریڈیو اور سوشل میڈیا پر اس طرح کا مواد دیکھایا جائے جس سے خواتین کو بریسٹ کینسر کے حوالے سے آگاہی ملے نیز علامات اور احتیاطی تدابیر سے بھی واقف ہو سکیں۔
ماہرین کے مطابق خواتین کو چاہیے کہ مہینے میں ایک بار خود معائنہ کریں اگر کسی بھی طرح کی کوئی تبدیلی واضح ہو تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ 40 سال سے زائد عمر کی خواتین کو میمو گرام ضرور کروانا چاہیے ۔ جب تک خواتین خود تعلیم یافتہ اور آگاہ نہیں ہوں گی تب تک اس مسئلے پر قابو نہیں پایا جاسکے گا۔ چھاتی کا سرطان قابل علاج بیماری ہے لیکن ضروری ہے کہ بروقت تشخیص اور علاج ہو۔ یہ ھم سب کی زمہ داری ہے کہ ہر عورت کو اس مرض کے بارے میں شعور دیا جائے تاکہ ہر عورت اپنی صحت کے لیے خود قدم اٹھائے کیونکہ احتیاط علاج سے بہتر ہے ۔