Untitled 45

ڈگریوں کا انبار اور قابلیت کا فقدان

سید خالد جاوید بخاری

مشتاق احمد یوسفی کا ایک بہترین طنزیہ جملہ تھا کہ:
"اگر کسی اچھی کتاب سے کئی نسلوں کو بیزار کرنا ہو تو اسے نصاب میں شامل کر دیا جائے۔”
آج کے تعلیمی نظام، خصوصاً پاکستان میں، پہلے سے زیادہ سچ معلوم ہوتا ہے۔ 2025 میں پاکستان اور دنیا بھر کے تعلیمی ادارے بڑی تبدیلیوں سے گزر رہے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں اب بھی ’’ڈگری یافتہ مگر نااہل‘‘ افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

2025 کی تعلیمی صورتِ حال ہے کہ کورونا وبا (2020–21) کے بعد سے آن لائن لرننگ عام ہوئی۔ 2025 تک یہ نظام مزید وسیع ہوا، مگر پاکستان میں آن لائن کلاسز زیادہ تر ’’کاپی پیسٹ‘‘ کلچر کو فروغ دے رہی ہیں۔طلباء ChatGPT، AI ٹولز، اور گوگل ٹرانسلیٹ پر انحصار کرتے ہیں لیکن بنیادی تصور کو نہیں سمجھتے۔2025 میں بی اے، ایم اے اور یہاں تک کہ ایم فل ڈگریاں بھی ملازمت کے لیے ناکافی سمجھی جاتی ہیں۔
نوکریاں صرف مہنگی نجی جامعات اور بیرون ملک تعلیم یافتہ طلبہ کو مل رہی ہیں، جس سے طبقاتی فرق بڑھ رہا ہے۔
Untitled 46
پاکستانی جامعات کی عالمی درجہ بندی پر نظر دوڑائیں‌تو QS Ranking 2025 میں صرف 2 پاکستانی جامعات ٹاپ 500 میں جگہ بنا سکیں۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر پاکستانی ڈگریوں کی وقعت کم ہے۔عالمی ادارہ محنت (ILO, 2024) کے مطابق، پاکستان میں 65% نوجوانوں کے پاس ڈگری تو ہے مگر جدید ٹیکنالوجی یا فنی مہارت نہیں۔جس کے نتیجے میں‌ڈگری یافتہ بے روزگاروں کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے۔

2025 میں بھی طلباء اصل علم کے بجائے زیادہ سے زیادہ نمبر اور CGPA کے پیچھے ہیں۔AI ٹولز سے اسائنمنٹس تیار کیے جاتے ہیں لیکن تخلیقی سوچ پیدا نہیں ہوتی۔بیشتر اساتذہ خود ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور جدید تحقیق کے طریقے نہیں جانتے، اور وہ طلباء کو ’’یاد کرنے‘‘ پر مجبور کرتے ہیں، ’’سوچنے‘‘ پر نہیں۔نجی جامعات میں 2025 میں ایک سال کی فیس کئی لاکھ روپے تک پہنچ گئی ہے۔غریب اور مڈل کلاس طلباء سرکاری جامعات میں داخل ہو کر صرف کاغذی ڈگری پاتے ہیں مگر عملی قابلیت حاصل نہیں کر پاتے۔
Untitled 47
ہمارے سماجی رویے یہ ہیں‌کہ آج بھی والدین بچوں کو صرف ’’نوکری‘‘ کے لیے پڑھاتے ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ’’قائد‘‘ اور ’’محقق‘‘ نہیں بلکہ ’’نوکر‘‘ پیدا ہو رہے ہیں۔پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق، 2025 میں گریجویٹس کی بے روزگاری کی شرح 31% تک پہنچ چکی ہے، جو خطے کے دیگر ممالک سے زیادہ ہے۔قابلیت نہیں ہونے کے باوجود، طلباء بیرون ملک جانے کو ہی کامیابی سمجھتے ہیں۔ صرف 2024 میں 8 لاکھ سے زائد پاکستانی نوجوان بیرون ملک ہجرت کر گئے (Overseas Pakistanis Report, 2024)۔پاکستانی جامعات میں شائع ہونے والی تحقیق کا بڑا حصہ اب بھی Plagiarism پر مبنی ہے۔HEC کی 2025 رپورٹ کے مطابق، 40% سے زیادہ ریسرچ پراجیکٹس ’’غیر معیاری‘‘ یا ’’نقل شدہ‘‘ پائے گئے۔

2025 کے تقاضوں کے مطابق ممکنہ حل یہ ہے کہ AI، Robotics، Data Science، اور Climate Change جیسے مضامین کو لازمی بنایا جائے۔پرانے نصاب کے بجائے Skill-based education پر زور دیا جائے۔ہر استاد کو ڈیجیٹل لٹریسی اور AI Tools کے مثبت استعمال کی ٹریننگ دی جائے۔Open-book exams، Online quizzes، اور Project-based learning رائج کی جائے۔ChatGPT اور AI سے نقل کرنے کے بجائے، ان ٹولز کے تخلیقی استعمال کو سکھایا جائے۔ڈگری کے ساتھ کسی ہنر کو لازمی قرار دیا جائے (IT skills, Freelancing, Technical skills)۔طلباء اور والدین کو یہ شعور دیا جائے کہ تعلیم صرف روزگار نہیں بلکہ شعور، تحقیق اور قیادت پیدا کرنے کے لیے ہونی چاہیے۔

2025 میں بھی پاکستان میں ’’ڈگریوں کا انبار‘‘ تو ہے مگر ’’قابلیت‘‘ ندارد ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام جدید دنیا کے تقاضوں سے پیچھے ہے۔ اگر ہم نے فوری طور پر نصاب، اساتذہ کی تربیت اور تعلیمی کلچر میں انقلابی تبدیلیاں نہ کیں تو آنے والی نسلیں صرف کاغذی ڈگریوں کی مالک تو ہوں گی مگر عالمی سطح پر مسابقت کے قابل نہیں رہیں گی۔

حوالہ جات و ریفرنسز:
1. یوسفی، مشتاق احمد۔ زرگزشت. لاہور: الفیصل پبلی کیشنز، 1983۔
2. World Bank Report. Pakistan Education Sector Review. 2022.
3. QS World University Rankings. Pakistan Rankings. 2025.
4. Higher Education Commission (HEC), Pakistan. Plagiarism Policy Report. 2025.
5. Pakistan Bureau of Statistics (PBS). Labour Force Survey. 2025.
6. ILO (International Labour Organization). Youth Skills Gap in Pakistan. 2024.
7. Overseas Pakistanis Foundation. Migration Report. 2024.

Untitled 2025 06 04T010448.935
خالد جاوید بخاری
سینیئر قانون دان ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں