اسلام آباد: سینیٹ اجلاس میںاراکین کی جانب سے خطاب میںصنفی بنیادوںپر تشدد اور غیرت کے نام پر قتل میںاضافے کے ساتھ سزاؤں کی شرح میںکمی کا معاملہ اٹھا دیا گیا.
سینیٹ میںخطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہناتھا کہ صنفی بنیادوں پر تشدد کے اعدادوشمار تشویشناک ہیں، قانون سازی بہت احتیاط سے کی جانی چاہیے، غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہےاور ماں باپ عدالتوں میں خون معاف کردیتے ہیں، غیرت کے نام پر قتل میں عدالت صلح کے باوجود عمر کی سزا سنا سکتی ہے، غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں گواہوں کی ضرورت پڑتی ہے، مدعی، ملزم اور گواہ گھر کے ہوتے ہیں، گواہ عدالت میں مکر جاتے ہیں، غیرت کے نام پر قتل کی اجازت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ مرد کی انا اتنی بڑی ہے کہ ذرا سی بات پر ڈنڈا اٹھا کر تشدد کیا جاتا ہے، بدقسمتی سے ان قوانین کا غلط استعمال بھی ہے، ریپ کے کئی کیسز نو بیاہتا جوڑوں کے خلاف درج کرا دیئے جاتے ہیں، سینکڑوں کی تعداد میں اغواء برائے زنا کے ایسے کیسز تمام اضلاع میں زیرسماعت ہیں۔اعظم نذیر تارڑ کا کہناتھا کہ مجرم سزا سے نہ بچیں مل کر اس کا حل نکالا جائے۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ قائمہ کمیٹیوں کی کارروائی میں عدالتیں حکم امتناعی دے رہی ہیں، اٹارنی جنرل سے اس معاملہ پر مشاورت ہوئی ہے ۔ علی ظفر نے کہا کہ عدالت قائمہ کمیٹیوں کی کارروائی پر حکم امتناعی نہیں دے سکتیں ۔
سینیٹر شیریں رحمان نے صنفی بنیادوں پرتشدد میں خطرناک اضافہ،خواتین کو انصاف فراہمی میں ناکامی سے متعلق تحریک پیش کی، انہوں نے کہا کہ خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ہے، یہ سلسلہ ہمارے لیے مستقل شرم کا باعث بنا ہوا ہے، گزشتہ سال صنفی بنیادوں پر تشدد کے32 ہزار 617 کیسز ہوئے، ساڑھےپانچ ہزار ریپ، پچیس ہزار اغواء کے کیسز ہوئے ہیں، گزشتہ سال غیرت کے نام پر قتل کے 547 واقعات ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ ان سنگین جرائم میں سزاؤں کی شرح ایک فیصد سے کم ہے ، ان جرائم میں سزاؤں کے لیے 480 عدالتیں ہیں ، غیرت کے نام پر قتل کے جرائم میں سزا کی شرح آدھا فیصد بھی نہیں ، گھریلو تشدد کے جرائم میں سزا کی شرح 1.3 فیصد ہے ، سب سے زیادہ کیسز پنجاب میں ہیں ، 2023 میں 21 ہزار مقدمات زیرالتوا تھے.
شیری رحمان نے کہا کہ کیا خواتین کی سانسوں کی کوئی قیمت نہیں،صنفی بنیادوں پر تشدد کے مقدمات میں رہائی کی شرح 64 فیصد ہے۔ان کا کہناتھا کہ غیرت کے نام پر قتل اور گھریلو تشدد سے جان لینے کی کھلی چھوٹ ہے، خواتین کے حوالے سے ستر فیصد مقدمات رپورٹ نہیں ہوتے۔