Untitled 2025 08 20T184332.879

مذہبی اقلیتوں کو مساوی شہری تسلیم کیا جائے، ایچ آر سی پی

لاہور: پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کے زیرِ اہتمام ایک سیمینار میں گزشتہ برس مذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اس موقع پر ایچ آر سی پی کی رپورٹ "خوف کی گلیاں: 2024/25 میں مذہب یا عقیدے کی آزادی” بھی جاری کی گئی، جو پاکستان میں مذہبی آزادی اور اقلیتی حقوق کے لیے نہایت پریشان کن سال کی عکاسی کرتی ہے۔

رپورٹ میں مذہبی اقلیتوں پر تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کی نشاندہی کی گئی ہے، جن میں احمدیوں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات اور تحفظ شدہ عبادت گاہوں کی مسماری شامل ہیں۔ ایک ہولناک پیش رفت یہ بھی سامنے آئی کہ پولیس نے توہین مذہب کے دو ملزمان کو ماورائے عدالت قتل کر دیا جو توہینِ مذہب کے الزامات پر مشتعل ہجوم سے تحفظ مانگ رہے تھے۔

چیئرپرسن اسد بٹ کی پریس ریلیز میں مزید کہا گیا ہے کہ ایسے واقعات قانون نافذ کرنے والے اداروں اور نظام احتساب میں اصلاحات کی فوری ضرورت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ رپورٹ میں جبری تبدیلیٔ مذہب اور ہندو و مسیحی کم عمر بچیوں کی شادیوں کے جاری واقعات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے، جو پنجاب اور سندھ میں بچپن کی شادی کی روک تھام کے قوانین پر عمل درآمد میں سنگین ناکامی کی عکاسی کرتے ہیں۔

اسی دوران، نفرت انگیز تقاریر میں اضافہ — جن میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو دھمکیاں دینے سے لے کر منتخب نمائندوں کی علانیہ تضحیک شامل ہے — ظاہر کرتا ہے کہ شہری آزادیوں کا دائرہ محدود ہو رہا ہے اور انتہا پسند عناصر مزید حوصلہ پا رہے ہیں۔

ایچ آر سی پی نے وکلاء تنظیموں کے انتہا پسند مذہبی گروہوں کی جانب بڑھتے ہوئے جھکاؤ پر بھی تشویش ظاہر کی ہے— ایک ایسا رجحان جو وکالت کے شعبے کی خودمختاری کو کمزور کرتا ہے۔ رپورٹ میں ان الزامات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ سکیورٹی اداروں کی ملی بھگت سے سیکڑوں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو توہینِ مذہب کے مقدمات میں پھنسایا گیا اور ان سے بھتہ وصول کیا گیا۔

ان مسائل کے باوجود رپورٹ میں چند مثبت اقدامات کا بھی اعتراف کیا گیا ہے، جن میں کم عمری کی شادی کی ممانعت کا ایکٹ 2025 اور صوبائی سطح پر ایسے تحقیقی مراکز کا قیام شامل ہے جن کا مقصد پرتشدد انتہاپسندی پر قابو پانا ہے۔

دیگر سفارشات میں، ایچ آر سی پی نے وفاقی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی تحقیقات کی بنیاد پر ایک انکوائری کمیشن تشکیل دے تاکہ لوگوں کو توہینِ مذہب کے الزامات میں پھنسانے کے واقعات کی جانچ کی جا سکے۔حکام کو ان مدارس پر بھی نظر رکھنی چاہیے جو اکثر کم عمر لڑکیوں کی تبدیلیٔ مذہب کے واقعات میں ملوث پائے گئے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی اس قابل بنایا جانا چاہیے کہ وہ لوگوں کو ہجوم کے تشدد سے بچا سکیں، اور اس کے لیے انہیں معلومات اکٹھا کرنے، ہجوم کو قابو میں رکھنے، فسادات کے ابتدائی اشاروں کو سمجھنے اور کمیونٹی پولیسنگ کی تربیت دی جائے۔

مزید برآں، ایسے افراد کے خلاف فوری کارروائی ہونی چاہیے جو ہجوم کو تشدد پر اکساتے ہیں۔ ایچ آر سی پی کی سابق رپورٹس کی سفارشات کے مطابق، حکومت کو اقلیتوں کے حقوق کے لیے ایک آزاد اور بااختیار قومی کمیشن قائم کرنا چاہیے، جس میں تمام مذہبی برادریوں کی مساوی نمائندگی یقینی بنائی جائے۔

اپنا تبصرہ لکھیں