لاہور: ہائیکورٹ نے قرار دیا ہے کہ خواتین سے زیادتی کے مقدمے کی تحقیقات جنسی جرائم سے متعلق تربیت یافتہ خاتون آفیسر ہی کرسکتی ہے۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے خواتین اور بچوں کے آئینی حقوق کے تحفظ کیلئے اینٹی ریپ ایکٹ کی قانون سازی کو تاریخی قرار دیدیا۔
عدالت نے متاثرہ خاتون کے مقدمہ کی تحقیقات جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم سے کروانے کی درخواست بھی مسترد کر دی۔
عدالت نے یاسمین بی بی کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کیا فیصلے میں لکھا کہ زیادتی کے ہر مقدمے کی تفتیش جنسی جرائم کے سپشل یونٹ کے سپرد نہیں ہوسکتی۔ اینٹی ریپ ایکٹ کے سیکشن9ے تحت تفتیش کیلئے جنسی جرائم کا سپشل یونٹ قائم ہوگا۔
سیکشن 9 کے تحت یونٹ میں جنسی جرائم سے نبٹنے کیلئےآفیسرکو ٹریننگزدی جائیں گی۔ سیکشن 9 کے تحت تحقیقاتی ٹیم میں ایک خاتون آفیسر لازمی ہوگی۔ جنسی جرائم کے سپیشل یونٹ کا تصور جے آئی ٹی سے لیا گیا ہے۔ ایس ایس او آئی یو میں صرف وہ آفیسر ہونگے جس نے جنسی جرائم سے متعلق تحقیقات کی ٹرینگ لی ہوگی۔
فیصلے کے مطابق ہمارا قانون سپیشل اور حساس کیسز میں جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنانے کی اجازت دیتا ہے۔ عدالت درخواست گذارکی اس بات سے اتفاق نہیں کرتی کہ ریپ کے مقدمہ پر تفتیش ایس ایس او آئی یو کرے۔
موجودہ کیس میں ایڈووکیٹ جنرل نے رپورٹ دی کہ خاتون تفتیشی افسر جنسی جرائم کی تحقیقات کیلئے مکمل ٹرینڈ آفیسر ہے ۔ درخواست گزار نے 2022 میں تین افراد پر جنسی زیادتی کا مقدمہ درج کرایا۔
عدالت نے لکھا کہ درخواست گزار کے مطابق ملزمان نےاسکی نازبیا ویڈیوز بھی بنائی ہیں۔ درخواست گذار نے تفتیشی پرجانبدار ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے تفتیش تبدیلی کی درخواست دی، ڈی پی او حافظ آباد نے تفتیش تبدیل نہیں کی جس پر عدالت سے رجوع کیا گیا.
عدالت نے ڈی پی او کو 15 دن میں درخواست پر فیصلہ کرنے کا حکم دیدیا۔
فاضل عدالت میں خاتون نے درخواست دائر کی تھی کہ سال 2022ء میں تین افراد نے اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے ساتھ نازیبا ویڈیوز بھی بنا لیں، جس پرمقدمہ درج کرایا تو درست تفتیش عمل میں نہیںلائی گئی ہے.اس لئے مقدمہ کی غیر جانبدارانہ تفتیش کرنے کے ساتھ جنسی جرائم کے سپیشل یونٹ سے تفتیش کرانے کا حکم دیا جائے.