Untitled 2025 08 05T181549.305

پلاسٹک کا زہر رحم مادر تک پہنچنے سے بچوں میں کینسر اور دل کے امراض میں‌اضافہ

ویب نیوز: پلاسٹک بیماریوں اور موت کو جنم دینے لگا، پلاسٹک بحران کے باعث دنیا انسانی صحت پر سالانہ ڈیڑھ کھرب ڈالرز خرچ کرنے پر مجبور ہوگئی۔

دنیا کا پلاسٹک فضلہ 8 ارب ٹن تک جا پہنچا اور یہ فضلہ مائیکرو یا نینو پلاسٹک میں تبدیل ہو کر پانی، غذا اور سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوجاتا ہے۔انسانی آنکھوں کو نظر نہ آنے والے نینو پلاسٹک ذرات، انسانی خون، دماغ، ماں کے دودھ حتیٰ کہ بون میرو تک جا پہنچے ہیں۔

برطانوی روزنامے گارجین نے چشم کشا رپورٹ میں لکھا کہ 1950 کے بعد پلاسٹک کی عالمی پیداوار 200 گنا بڑھ چکی ہے اور 2060 تک پلاسٹک کی عالمی پیداوار ایک ارب ٹن سالانہ ہونےکا اندازہ ہے۔

پلاسٹک کا سب سے زیادہ استعمال ایک بار استعمال ہونے والی اشیا یعنی سوفٹ ڈرنک بوتلیں اور فاسٹ فوڈ کنٹینرز ہیں اور اس کے نتیجے میں بڑھنے والا پلاسٹک فضلہ اب اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ماؤنٹ ایورسٹ کی اونچائی سے لے کر سمندر کی گہری کھائیوں میں اس وقت 8 ارب ٹن پلاسٹک فضلہ زمین کو آلودہ کر رہا ہےکیوں کہ دنیا میں پیدا ہونے والے پلاسٹک کا صرف 10 فیصد ایسا ہے جسے ری سائیکل کیا جاسکتا ہے۔ماہرین کے مطابق پلاسٹک فضلے سے فضائی آلودگی، زہریلےکیمیکلز اور انسانی جسم میں مائیکروپلاسٹک ذرات کی مقدار بڑھ رہی ہے۔
Untitled 2025 08 05T181557.286
پلاسٹک میں 16000 سے زیادہ کیمیکلز کا استعمال ہوتا ہے، کئی پلاسٹک کیمیکلز انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہیں لیکن پلاسٹک بنانے والے ادارے یہ بات خفیہ رکھتے ہیں کہ انہوں نے پلاسٹک کی تیاری میں کون سا کیمیکل استعمال کیا ہے۔

تجزیے سے پتہ چلا ہےکہ رحم مادر میں موجود جنین، شیر خوار اور کمسن بچے پلاسٹک سے سب سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں، پلاسٹک سے پھیلی آلودگی حمل گرنے، قبل از وقت بچے کی پیدائش اور بچوں میں کمزور پھیپھڑوں سمیت دیگر پیدائشی نقائص کے علاوہ بچوں میں کینسر کا باعث بنتی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پلاسٹک کا فضلہ اکثر چھوٹے ٹکڑوں مائیکرو یا نینو پلاسٹک میں تبدیل ہو کر پانی، غذا اور سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوجاتا ہے، انسانی آنکھ سے نظر نہ آنے والے پلاسٹک کے یہ ننھے ٹکڑے انسانی خون، دماغ، ماں کے دودھ اور بون میرو تک جا پہنچے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر یہی وہ عوامل ہیں جو فالج اور دل کے دوروں کا باعث بنتے ہیں اور پلاسٹک کو سستا میٹریل سمجھنا غلطی ہے کیوں کہ اگر انسانی صحت پر اثرات کا جائزہ لیں تو ڈیڑھ کھرب ڈالرز سالانہ خرچ کے ساتھ پلاسٹک دنیا کا منہگا ترین میٹریل ثابت ہوتا ہے۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں‌ابھی تک پلاسٹک کو ختم کرنے کے لئے نہ تو عوامی شعور بیدار کیا جا سکا ہے اور نہ ہی مؤثر قانون سازی عمل میں‌لائی گئی ہے. جس کیو جہ سے پلاسٹک کافضلہ موزی بیماریوں‌کاباعث بن رہا ہے.

ایسے ترقی پذیر ممالک میں‌کینسر اور دل کی بیماریوں‌میں‌بھی اضافہ ہو رہا ہے اور یہ بیماریاں‌بچوں میں تیزی سے موت کا سبب بن رہی ہے.

اپنا تبصرہ لکھیں