زین العابدین عابد
بسا اوقات قومیں ایسے موڑ پر کھڑی ہوتی ہیں جہاں ایک قانون، ایک فیصلہ، ایک پیش رفت محض کاغذ پر لکھا لفظ نہیں رہتا،وہ پورے معاشرے کی روح کو چھو جاتا ہے۔ پاکستان کی سینیٹ نے حالیہ دنوں میں ایسا ہی ایک فیصلہ کیا، جب "صحافی تحفظ (ترمیمی) بل” کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔ یہ محض قانون سازی نہیں، قلم کی حرمت کا باقاعدہ اعلان ہے، وہ حرمت جس کے لیے کتنے ہی بے خوف صحافی، کتنی ہی راتوں کو اندھیروں میں اجالا ڈھونڈتے رہے۔
یہ بل ان ہزاروں بے آواز چیخوں کی بازگشت ہے جو کالموں، رپورٹس، اور براہ راست نشریات میں گم ہو کر بھی ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑتی رہیں۔ اب ریاست نے پہلی مرتبہ اعتراف کیا ہے کہ صحافی صرف خبروں کے سوداگر نہیں، سچائی کے محافظ ہیں — اور محافظوں کو تحفظ دیا جانا انصاف کا تقاضا ہے۔
بل کی بنیاد اس تصور پر ہے کہ اظہارِ رائے کی آزادی صرف رائے دینے کا حق نہیں، بلکہ معلومات کی تلاش، اشاعت اور اس کی ترسیل کا حق بھی ہے۔ اس کے تحت اب کسی صحافی کو ڈیوٹی کے دوران زدوکوب کرنا معمولی جرم نہیں بلکہ قابل سزا عمل ہے، جس کی سزا سات سال قید اور تین لاکھ روپے جرمانہ ہے۔ اگر کسی نے صحافی کو اس کے ذرائع بتانے پر مجبور کرنے کی جسارت کی، تو وہ تین سال کی قید کا حقدار ہوگا۔ اور اگر کسی نے صحافی کی پیشہ ورانہ خودمختاری میں مداخلت کی، تو پانچ سال جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔
یہ قانون اس پہلو سے بھی منفرد ہے کہ اس میں صحافی کے اہلِ خانہ، قریبی رشتہ داروں، ساتھیوں اور حتیٰ کہ ماتحتوں تک کو تحفظ دیا گیا ہے۔ گویا ریاست نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ خطرہ صرف قلم تھامنے والے تک محدود نہیں، بلکہ اس کی روشنی میں جینے والوں کو بھی اپنی آنکھیں بند رکھنے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے۔
بل میں ایک بااختیار "صحافی تحفظ کمیشن” قائم کرنے کی شق بھی شامل ہے۔ اس کا چیئرمین ہائی کورٹ کے سابق جج یا کوئی ایسا شخص ہوگا جو انسانی حقوق اور میڈیا قوانین کا ماہر ہو۔ یہ کمیشن محض کاغذی کارروائی نہیں کرے گا، بلکہ اسے یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ:صحافیوں کی جان و مال اور سماجی حیثیت کا تحفظ یقینی بنائے،پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے،شکایت کنندہ کی شناخت کو خفیہ رکھے، اور حقیقی خطرات کی صورت میں فوری اقدامات کی سفارش کرے۔تاہم، انٹیلیجنس اداروں کے خلاف براہِ راست تحقیقات کا اختیار اسے حاصل نہیں ہوگا، بلکہ ایسی شکایات متعلقہ اداروں کو بھیجی جائیں گی۔ یہ شق یقیناً ایک متوازن راستہ ہے — نہ اداروں کو بے لگام چھوڑا گیا اور نہ ہی صحافیوں کی شکایات کو دبایا گیا۔
بل میں خصوصی عدالتوں کے قیام کی شق ایک ایسی نوید ہے جو برسوں سے سننے کو ترس گئی تھی۔ اب صحافیوں کے خلاف جرائم کی فوری سماعت ممکن ہوگی، تاکہ انصاف تاخیر کی نذر نہ ہو۔ ان عدالتوں کا قیام متعلقہ ہائی کورٹس اور وفاقی حکومت کی مشاورت سے عمل میں آئے گا — اور یہی شفافیت کی ضمانت ہے۔
اس بل کی متفقہ منظوری بذاتِ خود ایک خوش آئند لمحہ ہے۔ جب ایوانِ بالا میں حکومتی و اپوزیشن اراکین ایک آواز ہو کر صحافت کی حرمت پر مہر ثبت کریں، تو یقین آتا ہے کہ قومی سلامتی صرف بارود اور بندوق سے نہیں، سچ اور صحافت سے بھی جڑی ہے۔ یہ قومی اتفاق رائے اس بات کا مظہر ہے کہ صحافت اب سیاست کا مہرہ نہیں، ریاست کی بنیاد ہے۔
صحافی جان لیں یہ بل پاکستانی صحافت کے لیے ایک نئے عہد کا آغاز ہوگا۔ یہ ان گمنام سپاہیوں کو سلام ہے جنہوں نے سینہ تان کر جھوٹ، جبر اور سنسرشپ کا سامنا کیا اور پھر بھی جھکے نہیں اب قلم تھامنے والا جان لے کہ اس کے پیچھے اب ریاست کا ہاتھ ہے، زباں بندی کا کوڑا نہیں۔اگر یہ قانون محض الفاظ کی حد تک محدود نہ رہا اور عملداری کی منازل بھی طے کر گیا، تو یہ دن تاریخ میں اس عنوان سے رقم کیا جائے گا: "جب ریاست قلم کے ساتھ کھڑی ہو گئی”۔ صحافت، جو اب تک فقط ہمت اور حوصلے کے سہارے جی رہی تھی، اب قانون کی چادر میں لپٹی ہوئی ہے۔ اب یہ کہنا بجا ہو گا کہ قلم اکیلا نہیں رہا ریاست اس کے ساتھ ہے، اور یہی ساتھ اصل انقلاب کی نوید ہے۔ یہ محض قانون نہیں ، انقلاب کا اعلامیہ ہے۔
کیا "صحافی تحفظ ترمیمی بل” میں ایسی کوئی شق موجود ہے جو صحافیوں کو پیکا (PECA) قانون سے مستثنیٰ قرار دیتی ہو؟ نہیں، سینیٹ سے منظور شدہ "صحافی تحفظ (ترمیمی) بل” میں ایسی کوئی شق شامل نہیں ہے جو واضح طور پر صحافیوں کو "پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA)” سے مستثنیٰ قرار دیتی ہو۔ یہ بل بنیادی طور پر صحافیوں، ان کے اہلِ خانہ اور قریبی ساتھیوں کو ان کے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران خطرات، تشدد اور دھمکیوں سے تحفظ فراہم کرنے پر مرکوز ہے۔ اس بل کے تحت ایک تحفظ کمیشن کے قیام اور صحافیوں کے خلاف جرائم کے مقدمات سننے کے لیے خصوصی عدالتوں کے قیام کی تجویز دی گئی ہے۔
اس بل کا مقصد آزادیِ صحافت کو فروغ دینا اور صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے، لیکن یہ بل پیکا قانون کی صحافیوں پر اطلاق کو ختم نہیں کرتا۔پیکا (PECA) کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔”پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ” 2016 و ترمیمی 2025ء نافذ کیا گیا، جو مختلف سائبر جرائم جیسے کہ آن لائن ہراسانی، سائبر بُلیئنگ، اور ہتکِ عزت جیسے جرائم سے متعلق ہے۔ جبکہ صحافی تحفظ بل کا دائرہ کار صحافیوں کو جسمانی نقصان، دھمکیوں اور کام سے متعلقہ دباؤ سے تحفظ فراہم کرنے پر مرکوز ہے تاکہ وہ محفوظ ماحول میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھا سکیں۔
اس بل میں کہیں بھی یہ واضح طور پر درج نہیں کہ صحافی پیکا کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔ لہٰذا، اگر کوئی صحافی اپنی آن لائن سرگرمیوں کے ذریعے پیکا کی کسی شق کی خلاف ورزی کرتا ہے، تو اس پر پیکا قانون کا اطلاق ہو سکتا ہے، جیسے کہ کسی عام شہری پر ہوتا ہے۔ یہ خدشات موجود ہیں کہ حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو نشانہ بنانے کے لیے پیکا کو استعمال کیا جا سکتا ہے، باوجود اس کے کہ نئے بل میں ان کے تحفظ کی کوشش کی گئی ہے۔ "صحافی تحفظ (ترمیمی) بل” اور "پیکا” دو مختلف دائرہ کار میں کام کرتے ہیں۔ پہلا جسمانی تحفظ اور صحافتی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے ہے، جب کہ دوسرا آن لائن جرائم اور مواد کی نگرانی سے متعلق ہے۔ نئے بل سے صحافیوں کو اہم قانونی تحفظات تو ملتے ہیں، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر وہ پیکا کی خلاف ورزی کریں تو ان پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوگا۔
سماجی اور قانونی رہنما ہونے کے ساتھ مختلف سماجی و قانونی موضوعات پر لکھتے ہیں۔