Untitled 2025 06 22T161040.611

عورت: ایک وجود، ایک ارادہ، ایک انقلاب

صفوراامجد

عورت — ایک ماں، ایک بیٹی، ایک بہن، اور ایک شریکِ حیات — یہ صرف رشتوں کا نام نہیں، بلکہ ایک مکمل انسان ہے، جو اپنی شناخت اور عزت کی حقدار ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانا اب صرف ایک سوچ نہیں، بلکہ ایک انقلابی تحریک ہے جو معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔ ایک بااختیار عورت وہ ہوتی ہے جو اپنے مستقبل کی بہتری کے لیے فیصلہ سازی کر سکے اور دوسروں پر بوجھ نہیں، بلکہ سہارا بنے۔

عورت کی تعلیم ہی پہلی سیڑھی ہے جس کے ذریعے اُسے اپنے حقوق کا شعور حاصل ہوتا ہے۔ تعلیم یافتہ عورت نہ صرف خود باشعور ہوتی ہے بلکہ ایک باشعور نسل کی پرورش بھی کرتی ہے۔ آج کا معاشرہ جتنا جدید ہو رہا ہے، بدقسمتی سے بہت سی عورتیں اب بھی اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں — نہ انہیں تعلیم جاری رکھنے کی اجازت ملتی ہے، نہ ہی اپنی زندگی کے اہم فیصلے خود کرنے کا اختیار۔

اسلام نے عورت کو عزت، تحفظ اور باوقار مقام عطا کیا۔ حضرت خدیجہؓ ایک کامیاب تاجرہ تھیں، اور کئی صحابیات نے اپنے شوہروں کے ساتھ دین کی تبلیغ میں حصہ لیا۔ یہاں تک کہ جنگوں میں بھی خواتین نے نمایاں کردار ادا کیا۔ حضرت اُمّ عمارہؓ نے غزوۂ احد اور حنین میں رسولِ اکرمﷺ کی حفاظت کی، اور حضرت رُفیدہؓ کو اسلام کی پہلی نرس سمجھا جاتا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام عورت کو صرف گھر تک محدود نہیں رکھتا، بلکہ ہر شعبۂ زندگی میں اسے اپنا کردار نبھانے کا حق دیتا ہے۔ اصل مسئلہ دین میں نہیں، بلکہ معاشرتی سوچ میں ہے۔

خواتین کو حقوق نہ ملنے کی ایک بڑی وجہ دقیانوسی سوچ بھی ہے — لڑکی کو بوجھ سمجھنا، ناقص العقل کہنا، اور اسے صرف گھر تک محدود کر دینا ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ شہری علاقوں کی خواتین کسی حد تک اپنے حقوق سے آگاہ ہیں، لیکن دیہی علاقوں میں آج بھی خواتین تعلیم، صحت، روزگار، اور قانونی تحفظ جیسے شعبوں میں محرومی کا شکار ہیں۔
Untitled 2025 06 22T161050.176
قانونی طور پر عورت کو برابر کے حقوق حاصل ہیں، لیکن ان پر عملدرآمد کی کمی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستانی آئین اور قوانین عورت کو تعلیم، روزگار، اور وراثت جیسے حقوق دیتے ہیں، مگر ان کا حصول خواتین کے لیے انتہائی مشکل بنا دیا گیا ہے۔ جنسی ہراسانی کی شکار عورت کے لیے ایف آئی آر درج کروانا اور ثبوت فراہم کرنا ایک طویل، تکلیف دہ عمل ہے۔ جائیداد میں حصہ مانگنے پر اکثر عورت کو لالچی کہا جاتا ہے۔ ملازمتوں میں برابری کے دعوے کے باوجود عورت کو مردوں کے برابر تنخواہ نہیں دی جاتی، اور کام کی جگہ پر اُسے ہراسانی یا دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یوں قانونی حق صرف کاغذی دعویٰ بن کر رہ جاتا ہے۔

آج سوشل میڈیا خواتین کو اپنی آواز بلند کرنے کا موقع دے رہا ہے، ان کے مسائل اجاگر ہو رہے ہیں، لیکن اس کے ساتھ انہیں کردار کشی اور تنقید کا بھی سامنا ہے۔

خواتین کو بااختیار بنانا ایک ترقی یافتہ معاشرے کی ضمانت ہے۔ اگر خواتین کو برابر کے حقوق دیے جائیں تو پورا خاندان اور معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ میڈیا، قانون، اور اجتماعی شعور کے ذریعے ہمیں ایک ایسا ماحول پیدا کرنا ہے جہاں ہر عورت اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکے اور خودمختاری کے ساتھ اپنی زندگی کے فیصلے کر سکے۔

Untitled 2025 05 11T003709.473
صفورا امجد، ویمن یونیورسٹی ملتان کے شعبہ ابلاغ عامہ کے آٹھویں سمسٹر کی طالبہ ہیں۔ میڈیا، مواصلات اور سماجی مسائل کے بارے میں پرجوش ہونے کے ساتھ، وہ کہانی سنانے اور صحافت کے ذریعے بیداری اور تبدیلی لانے کے لیے اپنی آواز کا استعمال کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں