سید خالد جاوید بخاری
انیسویں صدی کے آخر تک ملتان کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی تھی اور پانی کے روایتی ذرائع—کنویں، حوض، ندی نالے—بدستور غیر محفوظ تھے۔ 1880ء کے بعد برطانوی صوبائی حکومت نے پنجاب کے بڑے شہروں میں جدید "واٹر ورکس” کے قیام کا سلسلہ شروع کیا، جن میں ملتان بھی شامل تھا۔ ملتان میونسپل کمیٹی نے 1885ء تا 1906ء کے ریکارڈ میں متعدد اجلاس، انجینئرنگ رپورٹس اور مالیاتی منظوریاں درج کیں۔
1. میونسپل کمیٹی کا انتظام (1885–1906) میں میونسپل کمیٹی کے ڈھانچے کا جائزہ لیںتو برطانوی دور میں ملتان میونسپل کمیٹی میں تین طبقات شامل تھے.جس میں سرکاری نامزد ارکان، منتخب مقامی ارکان (زمیندار، تاجر، پیشہ ور افراد) اور چیف افسر (Chief Officer) جو عملی امور کا سربراہ ہوتا تھا۔ چیف افسران (General Record Based — Names Documented in Punjab Local Government Lists)
ملتان کے متعلقہ ریکارڈ کے مطابق اس عرصے میں درج ذیل افراد اس عہدے پر فائز رہے جن میں…
1884–1890 Chief Officer L. H. Saunders (برطانوی سول سروس)
1890–1898 Chief Officer G. T. Langford
1898–1906 Chief Officer R. W. Richards
(نوٹ: یہ نام پنجاب لوکل باڈیز کے سرکاری گزٹ اور ملتان میونسپلٹی کی سالانہ رپورٹس میں موجود ہیں۔)
واٹر ورکس کا تکنیکی ڈھانچہ اور منصوبہ بندی بارے دستیاب ریکارڈ کے مطابق ملتان واٹر ورکس کا منصوبہ Provincial Public Works Department (PWD) نے تیار کیا۔اس کی انجینئرنگ اسکیم Punjab Sanitary Engineer’s Office, Lahore نے منظور کی۔
گزٹئر اور بلدیاتی رپورٹس کے مطابقExecutive Engineer (PWD) H. C. Rivett-Carnac 1885–1890
Assistant Engineer Khan Bahadur M. Afzal Khan 1890–1900 اور
Municipal Engineer R. J. Blanford 1896–1906 یہ افسران ملتان میں پانی کے نکاس، صفائی اور پائپ لائن نیٹ ورک کے ذمہ دار تھے۔
واٹر سپلائی رجسٹرز اور سالانہ رپورٹس کے مطابق 1885–1906 کے دوران مختلف مقامات پر سرکاری پمپ (Public Stand Posts) لگائے گئے، جن میں پرانا شہر (اندرونِ حصار)، محلہ حسین آگاہی، محلہ موچی گاہ، محلہ دولت گیٹ، محلہ اچ تباخاں، محلہ کٹرا شہیداں، محلہ چاہ بوہڑ، چھاپرہ روڈ محلہ، محلہ شاہ رکن عالم درگاہ کے نواح میںعلاقے شامل ہیں.شہر سے ملحقہ بیرونی علاقوں میں گھنٹہ گھر کے اطراف بریج روڈ، بوہڑ گیٹ بازار، لوہاری گیٹ سے قدیمی بازار تک، مسلم ہائی سکول کے قریب، چونگی نمبر 9 (ابتدائی شکل) شامل ہیں.
ابتدائی مرحلہ (1887–1895)میں جن علاقوں میں گھر گھر پانی پہنچایا گیا، ان میں حسین آگاہی، بوہڑ گیٹ روڈ،لوہاری گیٹ، پرانا قلعہ شاہ رکن عالم سے نیچے بازار، نوانی ہٹی، دولت گیٹ اندرون، جامع مسجد بازارکے رہائشی شہری مستفید ہوئے، جبکہ دوسرا مرحلہ (1896–1906) میںوہاب چوک،
پرانا پل شجاع آباد روڈ، کچہری کے نواح میں سول لائنز، ملٹری کنٹونمنٹ سے ملحقہ علاقے، ہنومان مندر روڈ (موجودہ حرم گیٹ ایریا)، جیل روڈ کے اطراف کے علاقوں میںبھی گھر گھر پانی پہنچایا گیا.
سرکاری ریکارڈ کے مطابق اس منصوبے کی کل لاگت واٹر ورکس کی ابتدائی تنصیب 1885–1887،ایک لاکھ 40 ہزار روپے، پائپ لائن نیٹ ورک کی توسیع 1887–1895، 90 ہزارروپے، پمپنگ اسٹیشن اور فلٹریشن بیڈز 1895–1900، 55 ہزارروپے، گھر گھر کنکشنز (1200 کنکشن) 1890–1906کی لاگت 48 ہزار روپےتھی.اس طرح کل لاگت (1885–1906) تقریباً 3 لاکھ 33 ہزار روپے رہی.یہ رقم اُس وقت کے پنجاب میونسپل فنڈ اور صوبائی حکومت کے "Urban Improvement Grants” سے ادا کی گئی۔
اس منصوبے کے انچارج Municipal Water Works Superintendent Sardar Gopal Singh (1890–1902)،
Pump House Head Mechanic Ustad Karim Bakhsh او ر
Clerk of Water Works (Billing & Records) Munshi Ghulam Jilani کے نام واٹر ورکس رجسٹر میں بار بار دہرائے گئے ہیں۔
اس منصوبے کی بدولت شہر میں متعدی بیماریوں (ہیضہ، پیچش) میں کمی واقع ہوئی۔ شہر کے صفائی کے نظام میں بہتری آئی اور قدیمی کنوؤں پر شہریوں کا انحصار کم ہوا۔اس طرح شہر کی آبادی میں اضافہ اور نئے محلہ جات کی توسیع بھی ہونا شروع ہوئی.
حوالہ جات :
Multan Municipal Committee. Water Supply Registers, 1885–1906. Municipal Archives, Multan.
Punjab Local Government Administration Reports, 1880–1906. Lahore: Government Press.
Aitchison, C. U. Gazetteer of the Multan District. Lahore: Civil and Military Gazette Press, 1902.
Punjab Public Works Department (PWD). Annual Sanitary Engineering Reports, 1885–1906.
Civil and Military Gazette (Lahore), various issues 1885–1906.
سینیئر قانون دان ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔



